Zameen Theke Par Dene Ka Hukum

زمین ٹھیکے پر دینے کاحکم

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3156

تاریخ اجراء:03ربیع الثانی1446ھ/07اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیارقم کے بدلے زمین ٹھیکے پر دینا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں!رقم کے بدلے زمین ٹھیکے پر لینا ودینا شرعا جائز ہے جبکہ اس کی شرائط کالحاظ رکھاجائے مثلا اجارے کی مدت اور اجرت  کی مقدارمتعین ہو اور  یہ بیان کردیا جائے  کہ اُس میں کیا چیز بوئی جائے گی یا کاشتکارسے یہ کہہ دے کہ جو تو چاہے بولیا کر۔

   اس طرح ٹھیکے پر زمین لینے کا جواز احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اور صحابہ کرام کا اس پر عمل رہا۔جیساکہ صحیح بخاری میں ہے: عن رافع بن خديج، قال: حدثني عماي، أنهم كانوا يكرون الأرض على عهد النبي صلى الله عليه وسلم بما ينبت على الأربعاء أو شيء يستثنيه صاحب الأرض«فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك»، فقلت لرافع: فكيف هي بالدينار والدرهم؟ فقال رافع:«ليس بها بأس بالدينار والدرهم»“ترجمہ:رافع بن خدیج سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ مجھے میرے چچاؤں نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کو کرائے پر دیتے تھے، اس کے بدلے میں جو نہر وں کے کنارے پر اُگے گا یا کسی  چیز کے بدلے میں جسے  زمین کا مالک اپنے لیے مستثنیٰ کرلے، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا۔ میں نے رافع سے کہا یہ معاملہ درہم و دینار کے ساتھ کرنا کیسا ہے ؟ تو رافع نے کہا کہ دینار و درہم کے ساتھ یہ معاملہ کرنے میں حرج نہیں۔(صحیح بخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، باب کراء الارض بالذھب والفضۃ،ص422،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   اسی میں ہے:”وقال ابن عباس: إن أمثل ما أنتم صانعون: أن تستأجروا الأرض البيضاء، من السنة إلى السنة“ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا:جو تم کرتے ہو اس میں سے سب سے بہتر   یہ ہے کہ تم خالی زمین کو  سال سے سال تک کرائے پر لے لیتے ہو۔(صحیح بخاری، کتاب الحرث  و المزارعۃ، باب کراء الارض بالذھب والفضۃ،ص422،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   علامہ بدر الدین عینی ابومحمد محمود بن احمد عینی علیہ الرحمہ عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:”ان کراء الارض بالذھب والفضۃ غیر منھی عنہ، وانما النھی الذی ورد عن کراء الارض فیما اذا اکریت بشیء مجہول ، و ھذا  ھو الذی ذھب الیہ الجمہور۔۔۔وفي (مصنف) ابن أبي شيبة حكى جواز ذلك عن سعد بن أبي وقاص، وسعيد بن المسيب وابن جبير وسالم وعروة ومحمد بن مسلم وإبراهيم وأبي جعفر محمد بن علي بن الحسين، وحكي جواز ذلك عن رافع مرفوعا. وفي حديث سعيد بن زيد: وأمرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن نكريها بالذهب والورق، وقال ابن المنذر: أجمع الصحابة على جوازه، وقال ابن بطال: قد ثبت عن رافع مرفوعا أن كراء الأرض بالنقدين جائز“ترجمہ: زمین کا کرایہ سونے اور چاندی سے لینا ممنوع نہیں ۔ زمین کو کرائے پر دینے کے حوالے سے جو ممانعت ہے وہ اس بارے میں ہے کہ جب اسے کسی مجہول شے کے عوض کرائے پر دیا  جائے۔ یہ وہی مذہب ہے جس کی طرف جمہور گئے ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص، سعید بن مسیب، ابن جبیر، سالم ، عروہ ، محمد بن مسلم ، ابراہیم،امام ابوجعفرمحمد بن علی بن حسین رضوان اللہ علیہم سے اس کا جواز  نقل کیا ہے، جبکہ رافع سے مرفوعاً اس کا جواز روایت کیا ہے۔  سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم زمین سونے اور  چاندی(درہم و دینار) کے عوض کرائے پر دیں۔ ابن منذر نے کہا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اس  کے جواز پر اجماع ہے، ابن بطال نے کہا کہ رافع سے مرفوعاً ثابت ہے کہ زمین کو  درہم و دینار کے عوض کرائے پر دینا جائز ہے۔(عمدۃ القاری، باب کراء الارض بالذھب والفضۃ، ج 12،ص258، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” زراعت کے لئے جیسا ایک کھیت کااجارہ پر دینا جائز ، یوں ہی سارے گاؤں کا۔۔۔گاؤں میں چوپال اور مکان سکونت اور افتادہ زمینیں اور کاشت سے خالی کھیت اور وہ کھیت جن کی میعاد پٹہ تمام ہوگئی ،اور بنجرغرض جس قدر اراضی کسی کے اجارہ میں نہیں وہ تمام وکمال مستاجر کو سنین معینہ کے لئے اجرت معینہ پر (جتنا زر ٹھیکہ رکھنا منظورہو) زراعت وسکونت وانتفاع کے لئے مباح کردی جائے۔“(فتاوی رضویہ، ج 19،ص 558،559، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   بہار شریعت میں ہے: ” زمین کو زراعت کے لیے اُجرت پر دینا جائز ہے جبکہ یہ بیان ہو جائے کہ اُس میں کیا چیز بوئی جائے گی یا مزارع سے یہ کہہ دے کہ جو تو چاہے بولیا کر ،اگر ان چیزوں کا بیان نہیں ہوگا تو منازعت ہوگی کیونکہ زمین کبھی زراعت کے لیے اجارہ پر دی جاتی ہے کبھی دوسرے کام کے لیے اور زراعت سب چیزوں کی ایک قسم نہیں کہ بیان کرنے کی حاجت نہ ہو بعض چیزوں کی زراعت زمین کے لیے مفید ہوتی ہے اور بعض کی مضر ہوتی ہے اگر ان چیزوں کوبیان نہیں کیاگیا تو اجارہ فاسد ہے۔“(بہار شریعت، ج 3، حصہ  14، ص 124، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم