Video Game Ki Ujrat Aur Coins Ki Kharid o Farokht Ka Hukum?‎

ویڈیو گیم کی اجرت اور کوئنز کی خریدوفروخت کا حکم

مجیب:مولانا عرفان مدنی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:lar:7858

تاریخ اجراء:06ذوالحجۃ الحرام1439ھ/18اگست2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ انٹرنیٹ پرایک گیم ہے ، جسے کھیلنے کے لیے پہلے ایک اکاونٹ بنانا پڑتاہے ،جس کی وہ گیم ہوتی ہے ، اسے اکاونٹ بنانے کے لیے 20ہزارروپے فیس دی جاتی ہے ۔ یہ اکاونٹ گویااجازت نامہ ہوتاہے ،پھراس کے بعدکوئنز خریدے جاتے ہیں ، بغیرکوئنزکے گیم نہیں کھیلی جاسکتی اورجب کوئی کوئنزخریدتاہے ، تواس کے لیے کوئن کاایک چھوٹاسانشان ہوتاہے اوراس کے آگے اس کافیگرلکھاہوتا ہے ۔ مثلا : اگرکسی نے 500کوئنزخریدے ہیں ، توکوئن کے ایک نشان کے ساتھ500کافیگرلکھاہوا اس کی گیم پرظاہرہوجائے گا ۔ جب گیم کھیلی جائے گی تواگریہ شخص ہارگیا، تواس کے فیگرمیں سے کچھ مائنس ہوجائیں گے اورجیتنے والے کومل جائیں گے اوراگرجیت گیا ، تواسے ہارنے والے کے کوئنزمل جائیں گے ، جوقابل فروخت ہوں گے کہ اگرکوئی شخص اس سے رابطہ کرے کہ یہ کوئنزمجھے بیچ دو ، تواسےپیسوں کے بدلے بیچ دے گا ۔شرعی رہنمائی فرمائیں کہ یہ اکاونٹ بنانے کے لیے رقم دینااورپھرکوئنزکی خریدوفروخت یہ شرعاً درست ہے یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     اکاونٹ بنانے کے لیے رقم دینابھی جائزنہیں اور کوئنزکی خریدوفروخت بھی جائزنہیں ۔

     تفصیل اس میں یہ ہے کہ گیم کھیلنے کے لیے اکاونٹ بنانے پرجورقم دی جارہی ہے ، یہ بلامعاوضہ ہے اوراس سے مقصوداپناکام نکالناہے کہ مجھے اس بات کی اجازت مل جائے کہ میں کوئنزخریدکرکھیل سکوں ، تویہ رشوت ہے اوررشوت ناجائزوحرام ہے ۔

     حدیث پاک میں ہے : لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی والرائش، یعنی الذی یمشی بینھمایعنی نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم نے رشوت دینے والے ،رشوت لینے والے اوران دونوں کے درمیان چل کر معاملہ کروانے والے پرلعنت فرمائی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج4،ص444،مطبوعہ الریاض )

     ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: الراشی والمرتشی فی النارترجمہ : رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں آگ میں ہیں۔(الدعاء للطبرانی،ج1،ص579،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

     رشوت کی تعریف کے بارے میں  البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے : ما یعطیہ الشخص للحاکم وغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی ما یریدترجمہ:رشوت یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو کچھ دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا اسے اپنی منشاء پوری کرنے پر ابھارے۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق،کتاب القضاء،ج6،ص362،دار الکتاب الاسلامی،بیروت)

     فتاوی رضویہ میں ہے : ”رشوت لینا مطلقا حرام ہے ، کسی حالت میں جائز نہیں ۔ جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے ، رشوت ہے ۔ یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے ، لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم کے لیے جو کچھ دیا جائے دینے والے کے حق میں رشوت نہیں ، یہ دے سکتا ہے ، لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔“(فتاوی رضویہ، ج23، ص597، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

     نیز فقیہِ عصر حضرت مولانامفتی نظام الدین رضوی دام ظلہ العالی رجسٹریشن کے لیے دی جانے والی فیس کے متعلق تحریرفرماتے ہیں : ” اس کے ناجائز ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ فیس کی شرعی حیثیت رشوت کی ہے ، جو یقیناً حرام ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اپنا یا کسی کا بھی کام بنانے کے لیے ابتداء ً صاحبِ امر کو کچھ روپے وغیرہ دینا رشوت ہے اور یہاں کمپنی کو فیس اس لیے دی جاتی ہے کہ اسے اجرت پر ممبر سازی کا حق دے دیا جائے اورفیس کے مقابل کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ “(ماهنامہ اشرفیہ،ص38،شمارہ مئی2008ء)

     اورکوئنزکی خریدوفروخت بھی شرعادرست نہیں ، کیونکہ یہ شرعاکوئی مال نہیں ہے ، جبکہ خریدوفروخت مال کی ہی ہوسکتی ہے ۔ مال اس لیے نہیں کہ شریعت کی نظرمیں مال وہ ہے ، جس کی طرف طبیعتیں مائل ہوں اوران کووقتِ حاجت کے لیے ذخیرہ کیاجاسکے،جبکہ یہاں توصرف فیگرزہوتے ہیں ،اتنی تعدادمیں قابل ذخیرہ اشیاء نہیں ہوتیں۔کشف الکبیر و بحرالرائق وردالمحتار میں ہے : المراد بالمال مایمیل الیہ الطبع ویمکن ادخارہ لوقت الحاجۃ ترجمہ: مال سے مراد وہ چیز ہے ، جس کی طرف طبیعت میلان کرے اور اس کو حاجت کے وقت کے ليے ذخیرہ کیا جاسکتا ہو۔(ردالمحتار ، کتاب البیوع، ج4، ص501، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

     بدائع الصنائع میں ہے :البيع مبادلة المال بالمالترجمہ:بیع کہتے ہیں مال کے بدلے مال کاباہم تبادلے کو۔(بدائع الصنائع،ج05،ص140،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

     اگرکوئی مسلمان کوئنزخریدچکاہے ، تواسے چاہیے کہ مسلمان کے ہاتھ نہ بیچے بلکہ کسی حربی کافرکے ہاتھ بیچ کر رقم وصول کرلے اورپھربعدمیں مزیدنہ خریدے ۔فتح القدیرمیں ہے : (ولأن مالهم مباح)۔۔۔ وانما يحرم على المسلم اذا كان بطريق الغدر (فاذا لم يأخذ غدرا فبأی طريق يأخذه حل) بعد كونه برضا ترجمہ:اوراس لیے کہ ان کا(حربی کافروں کا)مال مباح ہے اورمسلمان پرصرف اسی صورت میں حرام ہے ، جب دھوکے کے طورپرہو ، پس دھوکے سے نہ لے توجس طریقے سے بھی لے گاحلال ہوگا ، جبکہ اس کی رضامندی سے لے۔(فتح القدیر،باب الربا،ج07،ص39،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

     فتاوی رضویہ میں ہے : ” کافر اصلی غیر ذمی وغیر مستامن سے اپنے نفع کے وہ عقود بھی جائز ہیں ، جو مسلم وذمی مستامن سے ناجائز ہیں، جن میں غدر نہ ہو کہ غدر و بدعہدی مطلقًا سب سے حرام ہے، مسلم ہو یا کافر ذمی ہو یا حربی مستامن ہو یا غیر مستامن اصلی ہو یامرتد۔ہدایہ و فتح القدیر وغیرہما میں ہے:لان مالھم غیر معصوم فبای طریق اخذہ المسلم اخذ مالامباحامالم یکن غدرا( کیونکہ ان کا مال معصوم نہیں، اسے مسلمان جس طریقے سے بھی حاصل کرلے ، وہ مال مباح ہوگا ، مگرشرط یہ ہے کہ دھوکا نہ ہو۔)(فتاوی رضویہ، ج14، ص139، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم