Teacher Ya Mulazim Ka Duty Time Kam Dena Aur Salary Puri Lena Kaisa?

ٹیچر یا ملازم کا ڈیوٹی ٹائم کم دینا اور سیلری مکمل لینا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-572

تاریخ اجراء:24ربيع الآخر1446ھ/28اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ دینی مدارس میں پڑھانے والے اگر بلا وجہ چھٹی کریں،یا بلا وجہ طلبہ کو نہ پڑھائیں، تو کیا ان کے لیے مکمل تنخواہ لینا جائز ہوگا؟ اور یہ مال حلال ہوگا یا نہیں؟اسی طرح  غیر مسلموں کے بینکوں اور غیر مسلموں کے  ہاسپیٹل میں جو مسلمان  اجیر خاص ہوتے ہیں، اگر یہ ڈیوٹی کے وقت میں اپنا ذاتی کام کریں،یا گھرآجائیں،تو کیا ان کا مکمل تنخواہ  لینا جائز ہوگا  اور  یہ مال ان کے لیے حلال ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اجیر خاص کے ذمہ تسلیمِ نفس واجب  ہوتا ہے یعنی جو وقت اس کے کام  کے لیے مقرر کردیا گیا ہو، اس وقت میں وہاں حاضر رہنا   اور سونپا  ہوا  کام کرنا  ضروری ہے،اجیر خاص  جس دن کام کی چھٹی کرے،یا   پورے  وقت میں   حاضر نہ رہے،یا  حاضر ہوکر اپنا  ذاتی  کام کرے،یاویسے ہی کام ہونے کے باوجود کام  نہ کرے  اور بیٹھا رہے،تو ان سب  صورتوں میں جس دن چھٹی کی،یا   کم وقت دیا  تو اتنے وقت کی  کٹوتی کروانا ہوگی،اس اجرت کا وہ  مستحق نہیں ہوگا، لہذا دینی مدارس میں پڑھانے والے  معلم  جس دن  مدرسے کی  چھٹی کریں،یا  مدرسہ حاضر ہوکر بلا وجہ طلبہ  کو نہ پڑھائیں، تو ان کے لیے اس دن کی کٹوتی کروانا لازم ہے،مکمل تنخواہ  لینا جائز نہیں اور وہ  رقم  بھی   ان کے لیے حلال نہیں ہوگی،اگر لے  لی ہو، تو  ان پر لازم ہوگا کہ  مدرسے کو واپس کریں۔یہی حکم   غیر مسلم کے بینکوں اورہاسپیٹل میں کام کرنے والے اجیر خاص کے لیے بھی ہے کہ  ڈیوٹی کے دوران  گھر آجانے،یا   اپنا  ذاتی  کام کرنے کے سبب  اتنے وقت کی اجرت   کی کٹوتی کروانا  ہوگی، مکمل تنخواہ  لینا جائز نہیں ہوگا،اور وہ  رقم  ان کے لیے بھی حلال نہیں ہوگی،اگر لے لی ہو، تو اسے واپس کرنا ضروری ہوگا،کیونکہ مسلمان کے لیے کافر  کا مال بھی   بدعہدی  سے حاصل کرنا شرعاًجائز نہیں ہے،ہاں البتہ  اگر پرائیویٹ ادارے کا  مسلمان یا کافر مالک،اپنے ملازم کی چھٹی یا تاخیر سے باخبر ہونے کے باوجود اپنی    رِضا مندی سے اس کو  پوری تنخواہ دیدے، تواب اجیر کے لیے پوری تنخواہ  کا لینا   شرعاً جائز ہوگا۔  

   اجیر خاص کے تسلیم نفس سے اجرت کے مستحق ہونے سے متعلق مبسوط سرخسی   میں ہے:’’أن استحقاق الأجر بتسليم نفسه لذلك العمل“ترجمہ:(اجیر خاص کے لیے)اجرت کا استحقاق اس کام کے لیےاپنے نفس کو سپرد کرنے سے ہوتا ہے۔(مبسوط سرخسی،جلد15،صفحہ161، دار المعرفہ،بیروت)

   اجیر خاص نے جتنا وقت نہیں دیا،یا وقت میں کام نہیں کیا،اس کی کٹوتی کروانا لازم ہوگی،جیسا کہ امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’مدرسین وامثالہم اجیر خاص ہیں، اور اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیمِ نفس لازم ہے، اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتاہے اگر چہ کام نہ ہو، مثلا: مدرسین وقتِ معہود پر مہینہ بھر برابرحاضر رہا، اور طالبِ علم کوئی نہ تھا کہ سبق پڑھتا، مدرس کی تنخواہ واجب ہوگئی، ہاں اگر تسلیمِ نفس میں کمی کرے،مثلاً: بلارخصت چلا گیا،یا رخصت سے زیادہ دن لگائے، یا مدرسہ کاوقت چھ گھنٹے تھا، اس نے پانچ گھنٹے دئے، یا حاضر تو آیا لیکن وقت مقرر خدمتِ مفوضہ(یعنی سونپے ہوئے کام ) کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام اگر چہ نماز نفل یادوسرے شخص کے کاموں میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض(متاثر)ہوگئی، یونہی اگر آتا اور خالی باتیں کرتا چلا جاتا ہے، طلبہ حاضر ہیں اور پڑھاتا نہیں کہ اگرچہ اجرت کا م کی نہیں تسلیم نفس کی ہے، مگریہ منع نفس ہے، نہ کہ تسلیم، بہر حال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے، اتنی تنخواہ وضع ہوگی۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ506،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اجیر کے لیے کم  وقت دے کر پوری تنخواہ لینا  حلال نہیں،اگر لے لی ہو،تو مستاجر کو واپس کرنی ہوگی،چنانچہ  سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’اگر مزدوری میں سُستی کے ساتھ کام کرتاہے گنہگار ہے اور اس پر پوری مزدوری لینی حرام،  اتنے کام کے لائق جتنی اجرت ہے، لے، اس سے جو کچھ زیادہ ملا مستاجر کو واپس دے، وہ نہ رہا ہو اس کے وارثوں کود ے، ان کا بھی پتہ نہ چلے  مسلمان محتاج پر تصدُّق کرے اپنے صَرف میں لانا یا غیرِ صدقہ میں اسے صَرف کرنا حرام ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد19،صفحہ407،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مسلمان کے لیے  کافر کا مال بھی بد عہدی سے حاصل کرنا حلال نہیں،چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے:’’غدر و بدعہدی مطلقًا سب سے حرام ہے، مسلم ہو یا کافر ذمی ہو یا حربی مستامن ہو یا غیر مستامن اصلی ہو یامرتد۔ہدایہ و فتح القدیر وغیرہما میں ہے:”لان مالھم غیر معصوم فبای طریق اخذہ المسلم اخذ مالامباحامالم یکن غدرا“ (کیونکہ ان کا مال معصوم نہیں، اسے مسلمان جس طریقے سے بھی حاصل کرلے، وہ مال مباح ہوگا، مگرشرط یہ ہے کہ دھوکا نہ ہو۔)‘‘(فتاوی رضویہ، جلد14، صفحہ139، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

   بہار شریعت میں ہے:’’ کافروں کی خوشی سے جس قدراُن کے اموال حاصل کرے،جائز ہے، اگرچہ ایسے طریقہ سے حاصل کیے کہ مسلمان کا مال اس طرح لینا جائز نہ ہو مگر یہ ضرور ہے کہ وہ کسی بدعہدی کے ذریعہ حاصل نہ کیا گیا ہو کہ بدعہدی کفار کے ساتھ بھی حرام ہے۔‘‘(بھار شریعت،جلد2،حصہ11،صفحہ775،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

   امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ’’حلال طریقے سے کمانے کے50مدنی پھول‘‘ نامی رسالے میں لکھتے ہیں:’’گورنمنٹ کا ادارہ ہو یا پرائیویٹ ملازِم اگر ڈیوٹی پر آنے کے معاملے میں عُرف سے ہٹ کر قصداً تاخیر کرےگایا جلدی چلا جائے گا یا چھٹیاں کرے گا،تو اس نے معاہدے کی قَصْداً خلاف ورزی کا گناہ توکیاہی کیا اور ان صورتوں میں پوری تنخواہ لے گا، تومزید گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہوگا۔فرمانِ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن:’’جوجائز پابندیاں مشروط(یعنی طے کی گئی)تھیں ان کا خلاف حرام ہے اوربِکے ہوئے وقت میں اپنا کام کرنا بھی حرام ہے اور ناقص کام کرکے پوری تنخواہ لینا بھی حرام ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ج۱۹ص۵۲۱)۔۔۔البتہ نجی(یعنی پرائیوٹ) اِدارے کا مالک جانتے ہوئے رِضامندی کے ساتھ پوری تنخواہ دیدے تو جائز ہے۔‘‘(حلال طریقے سے کمانے کے50 مدنی پھول،صفحہ8،6،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم