Sharabi Shakhs Ko Kheti Bari Ke Kaam Par Rakhne Ka Hukum

شرابی شخص کو کھیتی باڑی کے کام پر رکھنے کاحکم

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3122

تاریخ اجراء:12ربیع الثانی1446ھ/16اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا کھیتی باڑی کا کام ہے۔ میں اپنے کام کے لئے ایک شخص کو کام  پہ رکھتا ہوں ،جس کے بارے میں  پتہ ہے  کہ وہ شراب پیتا ہے۔اصل  میں وہ پیسے  دوسروں کی بنسبت کم لیتا ہے اور کام صحیح کرتا ہے۔ تو ایسے شخص کو کام پہ رکھنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دریافت کردہ صورت میں آپ کا شرابی شخص  کو کام  پر رکھنا جائز ہے،اب آگے وہ  اگرحاصل ہونے والی رقم کوکسی گناہ کے کام میں خرچ کرتاہے تویہ اس کافعل ہے ،اس کی وجہ سے آپ گنہگارنہیں  بشرطیکہ آپ   ناجائز کام میں تعاون کی نیت نہ کریں۔

    تفصیل اس میں یہ ہے کہ شرعی اصول کے مطابق  خرید وفروخت کی طرح اجارہ بھی عقود معاوضات میں سے ہے اور عقدِ  معاوضہ جب کافر  سے کرنے کی اجازت   ہے تو  گنہگار مسلمان سے کرنے کی  تو بدرجہ اولی اجازت ہو گی۔

       اجارے کے لئے عاقدین کا  نیک پرہیز گار  یا مسلمان ہونا شرط نہیں،چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے”واسلامہ لیس بشرط اصلا ،فتجوز الاجارۃ والاستئجار من المسلم و الذمی والحربی المستامن لان ھذا من عقود المعاوضات فیملکہ المسلم والکافر جمیعا کالبیاعات“ ترجمہ:عقد اجارہ کرنے والے کا مسلمان ہونا اصلاً کوئی شرط نہیں ہے،لہٰذا کرایہ پر کوئی چیز دینا یالینامسلمان ،ذمی اور حربی مستامن،سب سے جائز ہے، کیونکہ اجارہ عقود معاوضات میں سے ہے، لہٰذا مسلمان اور کافر سب اس کے مالک ہیں،جیسا کہ بیوع  میں ہوتا ہے۔(بدائع الصنائع،ج 4،ص 176،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم