مجیب: مولانا محمد شفیق
عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2506
تاریخ اجراء: 17شعبان المعظم1445 ھ/28فروری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میں یوکے میں
شاپ پر کام کرتا ہوں ، جہاں مجھے شراب اٹھانی اور بیچنی بھی
پڑتی ہے ۔ اس سے ملنے والے پیسے کیا کسی کو ڈونیٹ
یا کسی صدقے میں لگا سکتا ہوں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی
گئی صورت میں آپ کا وہاں جاب کرنا ہی ناجائز و گناہ ہے ۔
وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں کا کھانا پینا خود مسلمان کے لیے
ناجائز ہے، وہ چیزیں مسلمانوں کو تو درکنار، غیر مسلموں کو بھی
کھانے پینے کے لیے فراہم کرنا ، ناجائز ہے، کیونکہ صحیح
قول کے مطابق کفار بھی فروعات کے مکلّف ہیں ، انہیں کھانے
پینے کے لیے حرام اشیاء فراہم کرنا ضرور گناہ پر تعاون ہے اور
اللہ پاک نے گناہ پر تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
مسلم و غیر مسلم کو کھانے پینے کے لیے
حرام اشیاء فراہم کرنا گناہ پر تعاون ہے ،اور گناہ پر تعاون جائز نہیں
۔اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ﴿
وَلَا
تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللہَ
اِنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ
﴾ ترجمہ کنز العرفان:”اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ
کرواور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے
۔ “(پارہ 6، سورۃ المائدہ،آیت2)
حدیث پاک میں
شراب سے متعلق دس افراد پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ جامع
ترمذی میں ہے:’’لعن رسول اللہ صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم فی الخمر عشرۃ: عاصرھا ومعتصرھا
وشاربھا وحاملھا والمحمولۃ الیہ وساقیھا وبائعھا واٰکل
ثمنھا والمشتری لھا والمشتراۃ لہ‘‘ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے معاملے میں دس بندوں
پر لعنت فرمائی ہے، جو شراب کے لیے شیرہ نکالے،جو شیرہ
نکلوائے،جو شراب پیے،جو اٹھا کر لائے،جس کے پاس لائی جائے،جو شراب
پلائے،جو بیچے،جو اس کے دام کھائے،جو خریدے اور جس کے لیے
خریدی جائے ۔ “(جامع ترمذی، ابواب
البیوع، جلد 1، صفحہ 242، مطبوعہ کراچی)
کفار بھی فروعات کے
مکلّف ہیں،چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:’’حرمۃ
الخمر والخنزیر ثابتۃ فی حقھم کما ھی ثابتۃ
فی حق المسلمین،لانھم مخاطبون بالحرمات وھو الصحیح عند اھل
الاصول‘‘ ترجمہ : شراب اور خنزیر کی حرمت غیر
مسلموں کے حق میں بھی بالکل اسی طرح ثابت ہے ،جس طرح مسلمانوں
کے حق میں ثابت ہے ،کیونکہ وہ بھی محرمات کے مکلف ہیں اور
یہی اہلِ اصول کے نزدیک صحیح ہے ۔ ‘‘(بدائع
الصنائع، کتاب السیر، جلد 6، صفحہ 83، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ
میں ہے:’’صحیح یہ ہے کہ کفار بھی مکلّف با لفروع
ہیں ۔ ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 16،
صفحہ 382، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
کفار کو شراب پلانے کے
متعلق ہدایہ شریف میں ہے :’’ولا ان
یسقی ذمیا ولا ان یسقی صبیا للتداوی
والوبال علی من سقاہ‘‘ ترجمہ:ذمی
اور بچہ کو دوا کے لیے (بھی )شراب پلانا ، جائز نہیں اور اس کا
وبال پلانے والے پر ہو گا ۔ ‘‘(الھدایہ، کتاب
الاشربہ، جلد 4، صفحہ 503، مطبوعہ پشاور)
اورنا جائز کام کی
نوکری کے متعلق موسوعہ فقہیہ کو
ییتہ میں ہے:’’اتفقوا
علی انہ لا یجوز للمسلم ان یؤجر نفسہ للکافر لعمل لا یجوز
لہ فعلہ کعصر الخمر ورعی الخنازیر وما اشبہ ذلک‘‘ ترجمہ:
فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان کا کافر کے پاس ایسے کام کے
لیے اجیر ہونا ، جائز نہیں جو کام اس کے لیے شرعاً جائز
نہ ہو، جیسے شراب (کے لیے انگور) نچوڑنا، خنزیروں کو چرانا اور
اسی طرح کے دیگر ناجائز افعال ۔ ‘‘(موسوعہ
فقھیہ کویتیہ، جلد 19، صفحہ 45، مطبوعہ کویت)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد
رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’شراب کابنانا، بنوانا،
چھونا، اٹھانا، رکھنا، رکھوانا، بیچنا، بکوانا، مول لینا، دلواناسب
حرام حرام حرام ہے اور جس نوکری میں یہ کام یا شراب
کی نگہداشت، اس کے داموں کا حساب کتاب کرنا ہو،سب شرعاً ناجائز ہیں
۔ قال اللہ تعالیٰ: ﴿وَلَا
تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾“(فتاوی
رضویہ، جلد 23، صفحہ 566،565، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
نر جانورسے جفتی کروانے کی اجرت لینے کاحکم
درزی کے پاس بچے ہوئے کپڑے کا حکم ؟
جو ریپرینگ کے لئےسامان دے جاتے ہیں مگرواپس لینے نہیں آتےان کا کیا کریں؟
کیا کسی چیزکے فروخت کرنے پر اجارہ کرنا درست ہے؟
ایسے چینل پرنوکری کرنا کیسا جہاں جائز و ناجائز پروگرامز آتے ہوں؟
دورانِ ڈيوٹی جو وقت نماز ميں صرف ہوتا ہے اس کی تنخواہ لينا کیسا؟
دوران اجارہ نماز میں صرف ہونے والے وقت کا اجارہ لینا کیسا؟
امام مسجد کا حج کی چھٹیوں پر کسی کو نائب بنانے اور ان دنوں کی تنخواہ لینے کا حکم