Sarkari Jagah Rent Par Dene Ka Hukum

سرکاری جگہ کرائے پہ دینے کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7992

تاریخ اجراء: 27محرم الحرام   1444ھ/26اگست   2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص  کا انتقال ہوا ،فوت ہونے والے کی دکانیں مارکیٹ میں موجود ہیں،مرحوم کے بیٹوں نے دکانوں کے سامنے سرکاری جگہ جو  راستہ ہے، اس جگہ کو ٹھیلے والوں کو کرائے پر دیا ہوا ہے ،تو پوچھنا یہ ہے کہ اس جگہ کو کرائے پردیناجائز ہے اور کیا اس سے حاصل ہونے والی آمدن میں وراثت کے مال کی طرح تقسیم کاری کی جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں  سرکاری زمین کو کرائے  پردے کر اس  کی اجرت لیناجائز نہیں ،لہذا اس سے حاصل ہونےو الے مال میں وراثت بھی جاری نہیں ہو گی ،کیونکہ   اجارے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جو چیز اجارے پر دی جا رہی ہے، وہ بندے کی ملکیت میں ہو،جب کہ مذکورہ بالا صورت میں وہ جگہ ان کی ملکیت میں ہی نہیں، لہذا ان کا کرایہ لینا  جائز نہیں،یونہی اس میں وراثت بھی جاری نہیں ہوگی کہ وراثت  کا تعلق صرف اسی چیز کے ساتھ ہوتا ہے، جو مرنے والے کی ملکیت میں ہو،جبکہ یہ جگہ مرحوم کی ملکیت نہیں ۔

   جوچیزملکیت اورولایت  میں نہ ہواسے اجارے پر نہ دینے کے بارے میں فتاوی ہندیہ میں ہے:”إذا بنى المشرعة على ملك العامة ثم آجرها من السقائين لا يجوز سواء آجر منهم للاستقاء أو آجر منهم ليقوموا فيها ويضعوا القرب“ترجمہ:جب کسی نے (دریا کے کنارے)عوام کی ملکیت پرگھاٹ بنایا،پھراس نے پانی پلانے والوں کوکرایہ پردے دیا،تویہ جائزنہیں،خواہ اجارہ پانی پینے پرکیا ہو یاوہاں کھڑے ہونے اوربرتن رکھنے پر کیا ہو۔(فتاوی ھندیہ،ج04،ص453،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   یونہی بدائع الصنائع میں ہے:”ومنها الملك والولاية فلا تنفذ إجارة الفضولي لعدم الملك والولاية “ترجمہ:اجارے کی شرائط میں سے ایک شرط ملک اورولایت ہے،پس فضولی کااجارہ کرناملک اورولایت نہ ہونے کی وجہ سے نافذ نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع،ج04،ص177،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   ورثاءاسی چیزکےمستحق ہوتےہیں،جومرنےوالےکی ملک ہو،چنانچہ اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتےہیں:” ورثاءاس چیزکےمستحق ہوتےہیں،جومورث کی ملک اوراس کاترکہ ہو۔“(فتاوی رضویہ، ج17،ص306،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   اسی بارےمیں ایک اورمقام پرارشادفرماتےہیں:”ارث متعلق نہ شودجزبترکہ وترکہ نیست جز آنکہ ہنگام موت مورث درملک اوست،واللہ تعالی اعلم“ترجمہ:میراث کاتعلق ترکہ کےعلاوہ چیزوں کےساتھ نہیں ہوتااورترکہ اس شےکےعلاوہ نہیں ہوتا،جومورث کی موت کےوقت اس کی ملکیت میں ہواوراللہ تعالی خوب جانتاہے۔“(فتاوی رضویہ،ج26،ص109،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم