Rishwat Dene Wali Company Mein Job Karna Kaisa ?

رشوت دینے والی کمپنی میں ملازمت کرنے کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13262

تاریخ اجراء: 20رجب المرجب1445 ھ/01فروری 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک ایسی کمپنی میں ملازمت کرتا ہے  جس کے مالکان رشوت دے کر سرکاری ہسپتال کے لیے مختلف آئٹمز (مثلاً بیڈ شیٹ، جنرل یا سرجیکل پروڈکٹس وغیرہ ) کا آرڈر وصول کرتے ہیں۔ کمپنی جب ہسپتال سے آرڈر وصول کرلیتی ہے تو زید مارکیٹ میں جاکر کم سے کم ریٹ میں وہ مطلوبہ سامان خرید کر ہسپتال پہنچادیتا ہے اور کمپنی سے اپنی طے شدہ اجرت وصول کرتا ہے۔  باقی کمپنی کے رشوت کے معاملات میں زید کا کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

   آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اس ساری صورتحال میں زید کا اُس کمپنی میں ملازمت کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں شرعی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کمپنی کے جائز امور پر زید کا   ملازمت اختیار کرنا شرعاً جائز ہے۔ کمپنی کے مالکان کا صورتِ مسئولہ میں رشوت دے کر آرڈر وصول کرنا بلاشبہ ناجائز و حرام کام ہے،  لیکن اس کا وبال اُنہی مالکان پر ہوگا ۔ کمپنی کے وہ ملازمین جو اس جرم میں براہِ راست شریک نہیں اُن پر یہ وبال نہیں آئے گا، کیونکہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔

   چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ؕ“ترجمہ کنزالایمان:” اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔“(القرآن الکریم: پارہ15،سورۃ بنی اسرائیل،آیت 15)

   البتہ   اگر کمپنی کے کسی بھی ناجائز کام میں زید کی براہِ راست کوئی معاونت پائی جائے، تو پھر یہ ملازمت اختیار کرنا زید کے لیے جائز نہیں ہوگا ، کیونکہ گناہوں کے کاموں پر معاون و مددگار بننا  اور ان کاموں پر ملازمت اختیار کرنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے۔

   رشوت کی مذمت پر خطیب تبریزی  علیہ الرحمہ " مشکوٰۃ المصابیح"  میں حدیث بیان فرماتے ہیں:” وعن عبد الله بن عمرو قال : لعن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم الراشی والمرتشی رواه أبو داود وابن ماجه ۔“یعنی حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےرشوت لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی، اس حدیث کو ابو داؤد اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔(مشكاة المصابيح،  کتاب الامارۃ و القضاء، ج02،ص 1108، المكتب الإسلامی،  بيروت)

   کسی گناہ کے کام پر معاونت نہ پائی جائے، تو ملازمت کرنا ، جائز ہے۔ جیساکہ سیدی اعلیٰ حضرت   علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”چند مسلمان اشخاص کی دکان شرکت میں کلکتہ ، بمبئی یا کسی اور مقام پرہے،دکان کی کل رقم میں تقریبا چہارم سود کا روپیہ لگاہواہے، ایسی دکان میں کسی مسلمان کو ملازمت کرنا،  جائز ہے یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:” اس دکان کی ملازمت اگرسود کی تحصیل وصول یا اس کا تقاضا کرنا یا اس کا حساب لکھنا ، یا کسی اور فعلِ ناجائز کی ہے تو ناجائز ہے۔۔۔۔اور اگر کسی امر جائز کی نوکری ہے تو جائز ہے۔(فتاوٰی  رضویہ ، ج 19، ص 522-521، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   وقار الفتاوٰی میں ہے: ”اگر ملازم کو سود لکھنا پڑتا ہے تو اسکی ملازمت بھی نا جائز اور تنخواہ لینا بھی نا جائز۔ احادیث میں سود کا کاغذ لکھنے والے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے اور جن ملازمین کو سود لکھنا نہیں پڑتا مثلا دربان اور ڈرائیور وغیرہ تو ان کی ملازمت بھی جائز ہے اور تنخواہ بھی۔(وقار الفتاوی،ج03،ص325،بزم وقار الدین، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم