Rent Par Li Hui Dukan Aage Kiraye Par Dene Ka Hukum

کرائے پر لی ہوئی دُکان آگے کرائے پر دینے کا حکم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2464

تاریخ اجراء:       06 رمضان المبارک1443  ھ/08 اپریل2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ آج کل مارکیٹ میں کاروبار کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی رائج ہے کہ فریق اول اپنی دُکان فریق دوم کو مبلغ دس ہزار  روپے ماہانہ کی بنیاد پر کرائے پر دیتا ہے۔ فریق دوم اس دُکان کے اندر خود کوئی کاروبار یا کام نہیں کرتا ، بلکہ اس کی تزئین و آرائش کرتا ہےمثلا اس میں رَیک بنواتا ہے، سیلنگ، پیلنگ یا سفیدی وغیرہ کرواتا ہے ۔یہ سب کرنے کے بعد فریق دوم وہی دُکان آگے فریق ثالث کو  مبلغ پندرہ ہزار روپے کرائے پر دے دیتا ہے۔شرعی طورپر معلوم کرنا ہے کہ فریق دوم کا فریق ثالث کو دُکان کرائے پر دینا اور اس سے منافع کمانا ، جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں فریق دوم کا کرائے پرلی گئی دُکان  فریق ثالث کو کرائے پردے کر منافع لینا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ بیان کی گئی صورت شرعی طور پر کرائے والی چیز  کسی تیسرے شخص کو کرائے پردے کر منافع لینے کی بنتی ہے اور اس کی جائز صورت یہ ہے کہ دکان کرائے پر لینے والا شخص یعنی فریق دوم دکان کی تعمیر و مرمت کرے، یا پھر اس کے ساتھ اپنی کوئی چیز ملا کرزائد کرائے پر دےتو اس کے لیے زائد کرایہ پر دینا جائز ہے اور ہماری بیان کی گئی صورت میں بھی فریق دوم نے دُکان میں ریک بنوائے، سفیدی کروائی  اور اس میں سیلنگ پیلنگ کا کام کروایا، تو فریق دوم کےلیے وہ دُکان آگے کرائے پر دے کر آمدنی حاصل کرنا بالکل جائز ہے۔

مبسوط میں ہے: ”فان اجرها باكثر مما استاجرها به تصدق بالفضل الا ان يكون اصلح منها بناء او زاد فيها شيئا فحينئذ يطيب له الفضل“ یعنی :کسی نے اجارے پر لی ہوئی چیز آگے زائد اجرت پر دےدی، تو اب منافع صدقہ کرے گامگر یہ کہ وہ اس کی عمارت میں کوئی بہتری لائے یا پھر اس میں کسی چیز کااضافہ کر ے، تو اب اس کےلیے زیادتی لیناجائز ہے۔(المبسوط، جلد15، صفحہ130، بیروت)

   کرائے پر لی گئی دُکان وغیرہ کو آگے کرائے پر دے کر نفع لینے کی صورتوں کا بیان کرتے ہوئے درمختار میں ہے: ”ولو اجر باکثر تصدق بالفضل الا فی مسئلتین: اذا اجرھا بخلاف الجنس او اصلح فیھا شیئا“ یعنی :اگر کسی نے اجارے پر لی ہوئی چیز زیادہ اجارے پر کسی دوسرے کو دے دی، تو اب وہ منافع صدقہ کرےگا، مگر دو صورتوں میں منافع صدقہ کرنا ضروری نہیں: پہلی صورت جب اس نے خلافِ جنس چیز پر اجارہ کیا یا اس چیز میں کوئی  اصلاح کرکے بہتر کیا ہو۔(الدرالمختار، جلد9، صفحہ47، کوئٹہ)

   اس عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے: ”وکذا اذا اجر مع مااستاجر شیئا من مالہ یجوز ان تعقد علیہ الاجارۃ فانہ تطیب لہ الزیادۃ“ یعنی :اسی طرح اگر اجارے پر چیز لینے والا شخص اس چیز کے ساتھ اپنی کوئی چیز ملا کر اجارے پر دے دے، تب بھی عقد اجارہ جائز ہے اور اس کے حق میں منافع جائز ہوگا۔(ردالمحتار، جلد9، صفحہ47، کوئٹہ)

   کرائے کی چیز کو آگے کرائے پر دے کر منافع کمانے کی صورتوں کا بیان کرتے ہوئے بہار شریعت میں ہے: ”مستاجر نے مکان یا دکان کو کرایہ پر دے دیا، اگر اتنے ہی کرایہ پردیا ہے جتنے میں خو دلیا تھا یاکم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے ،اسے صدقہ کردے ۔ہاں اگرمکان میں اصلاح کی ہو اسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یاکرایہ کی جنس بدل گئی مثلاًلیا تھا روپے پردیا ہو اشرفی پر اب بھی زیادتی جائز ہے۔ جھاڑودیکر مکان کو صاف کرلینایہ اصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے اصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو مثلاًپلاستر کرایا یا مونڈیر بنوائی۔(بھار شریعت، جلد3، حصہ14، صفحہ124، مکتبۃ المدینہ)

   کرائے پر لی گئی چیز کو آگے کرائے پردے کر اس سےمنافع کمانے کے متعلق  فتاوی رضویہ میں ہے: ” تین صورتوں میں جائز ہے (1) اس کے ساتھ اپنے پاس سے اور کوئی چیز ملا کر دونوں کو مجموعۃ زیادہ پر دے۔(2) اس زمین کو کنواں کھود کریا اور کام نفع کا بڑھاکر کرایہ پر دے۔ (3) کرایہ کی جنس بدل دے، مثلا اس کے پاس دس روپے سال پر ہے یہ ذیلی کو ایک اشرفی کرائے پردے یاجتنی اشرفیاں ٹھہریں یو نہی نوٹ یا پیسہ یا اکنیاں۔ (فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ210، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم