Online Freelancing Mein Projects Hasil Karne Ke Liye Dhoka Dena

آن لائن فری لانسنگ میں پروجیکٹس حاصل کرنے کے لئے دھوکا دینا

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-12800

تاریخ اجراء:23رمضان المبارک 1445 ھ/03اپریل2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم آن لائن فری لانسنگ (Freelancing)کرتے ہیں یعنی ہم اپنی اسکلز (Skills)آن لائن پیش کرتے ہیں اور ہمارا کام  کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنا ایک گرافک ڈیزائنر یا ویب ڈیزائنر ہوتا ہے،جس سے ہم کام کرواتے ہیں اور ہم یوں کرتے ہیں کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، مثلاً: فیس بک ، ٹوئٹر وغیرہ پر اپنی آئی ڈی /پروفائل بناتے ہیں  اوروہاں پر اپنے کام کی تشہیر کرتے ہیں اور ہمارے کلائنٹس (Clients)چونکہ اکثر فارن کنٹری (Foreign Country)کے لوگ (انگریز) ہوتے ہیں، جو سکَیْم (Scam /دھوکا)کے خوف سے غیر ملکی افراد پر اعتماد و بھروسہ نہیں کرتے ، اور پروجیکٹ نہیں دیتے ۔ تو ہم عموما  یوں کرتے ہیں کہ کسی  انگریز کی پروفائل پکچر (Profile Picture)لگاکر انگریز کے نام سے ہی آئی ڈیز بناتے ہیں اور اسی کے ذریعے کلائنٹس (Clients)سے بات چیت کرتے ہیں اور جب کوئی  کلائنٹ چیک کرنے کے لیے ہمارا گزشتہ کام مانگتا ہے تو ہم کسی دوسرے شخص کا کیا ہوا کام نیٹ سے اٹھا  کر اسے بھیج دیتے ہیں ۔اگر اُسے وہ کام پسند آ جاتا ہے، تو وہ ہمیں ہماری مقررہ فیس میں سے آدھی پیمنٹ (Half  Payment)بھیج دیتا ہے اور پھر ہم اس کی مرضی کے مطابق کام کر کے دے دیتے ہیں اور اگر اسے ہمارا کام پسند نہ آ ئے ،تو وہ اپنی رقم رِیْ فنڈ  (Refund)بھی کر سکتا ہے، اس معاملے میں ہماری طرف سے اس پر کوئی زبردستی نہیں ہوتی ۔ پوچھنا یہ ہے کہ ہمارا اس طرح کرنا کیسا ؟ اور اس انداز سے حاصل کیے گئے پروجیکٹس (Projects)کی آمدنی کا کیا حکم ہو گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کا جعلی پروفائل پکچر (Fake Profile Picture)لگانااور اپنے نام کی بجائے کسی انگریز کے نام سےاپنے آپ کو ظاہر کرنا اور دوسروں کا کیا ہوا کام اپنا بنا کر پیش کرنا جھوٹ ، فریب اور دھوکا  ہے، احادیث میں اس کی سخت  مذمت بیان کی گئی ہے اور دینِ اسلام میں کسی کافر سے بھی جھوٹ بولنا یااسے دھوکا دینا ناجائز و حرام  ہے ۔ لہذا پروجیکٹس (Projects) حاصل کرنے کے لیے آپ کا یوں کرنا شرعاً ناجائز و حرام ہے اور اگر پہلے ایسے  کر چکے ہیں،تو آپ پر فرض  ہے کہ اس سے توبہ کریں اور آئندہ نہ کرنے کا پکا عہد کریں ۔ رہی بات ان پروجیکٹس کی آمدنی کی ،تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ پروجیکٹس ، جائز مطالبات (Demands)اورجائز تقاضوں (Requirements)پر مشتمل ہوں، تو انہیں پورا کرنا اور ان کی آمدنی لینا شرعاً جائز وحلال ہے اور اگر وہ ناجائز  مطالبات وتقاضوں (مثلاً میوزک ، عورتوں کی یا فحاشی و عریانی پر مشتمل تصاویر ، دین و مذہب کے خلاف موادوغیرہ )پر مشتمل ہوں  تو انہیں پورا کرنا  اور ان کی آمدنی لینا شرعاًناجائز و حرام ہے ؛ کیونکہ قرآن پاک میں گناہ کے کاموں میں کسی بھی طرح  مدد و تعاون کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

   محدث جلیل ، امام محمد بن یزید اِبنِ ماجہ قزوینی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 273ھ)سنن  ابنِ ماجہ میں حدیث پاک لکھتے ہیں:’’عن أبي هريرة، قال: مر رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم برجل يبيع طعاما، فأدخل يده فيه فإذا هو مغشوش، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:ليس منا من غش ‘‘ترجمہ :  حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ میں ہاتھ ڈال کر دیکھا،تو (اندر سے) غیر خالص اوردھوکے والا تھا (باہر سے سوکھا اور اندر سے گیلاتھا)،  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو دھوکا دے ۔(سنن ابن ماجه، كتاب التجارات  ،باب النهي عن الغش ، جلد2، صفحہ  749،  دار إحياء الكتب العربيہ)

   محدث جلیل ، امام سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 360ھ) "المعجم الصغیر "‌‌ میں حدیث پاک لکھتے ہیں :’’قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وآله وسلم: من غشنا فليس منا ، والمكر والخديعة في النار ‘‘ ترجمہ : جس نے ہمیں دھوکادیا وہ ہم میں سے نہیں ، اور مکروفریب  اور دھوکا دہی  جہنم میں (جانے کا سبب) ہیں ۔(المعجم الصغير للطبرانی، جلد2، صفحہ 37، المكتب الإسلامي ، دار عمار  ،بيروت)

علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’والغش ستر حال الشيء‘‘ترجمہ : کسی چیز کی(اصلی)حالت کو چھپانا دھوکا ہے۔(فیض القدیر،جلد6، صفحہ 158، رقم الحدیث 8879، المكتبة التجارية الكبرى ،مصر)

   شیخ الاسلام ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1340ھ ) فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں :’’ غَدْر (دھوکابدعہدی مطلقًا سب سے حرام ہےمسلم ہو یا کافر ذمی ہو یا حربی مستامن ہو یا غیر مستامن اصلی ہو یامرتد۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 140، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    امام الحدیث والفقہ ، شاگردِ امام اعظم ، امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 189ھ) "کتاب الاصل" میں لکھتے ہیں :’’وقال أبو حنيفة: إذا استأجر الرجل أجيراً يعمل عملاً مسمى في بيته بأجر معلوم فهو جائز ‘‘ترجمہ:  امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کسی آدمی کو اجیر رکھا کہ وہ اس کے گھر میں معین کام ، مقرر اجرت کے بدلے میں  کرے تو اس طرح کرنا، جائز ہے ۔(الأصل،المبسوط، ‌‌كتاب الإجارات ،باب من استأجر أجيراً۔۔۔،  جلد3، صفحہ  582،  دار ابن حزم، بيروت)

    علامہ ابنِ عبد البر رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 463ھ) " الكافی فی فقہ اهل المدينۃ " میں لکھتے ہیں :’’وكل عمل فيه منفعة وكان عمله مباحا فجائز الإجارة فيه‘‘ترجمہ : ہر وہ عمل جس میں منفعت ہو اور اس کا کرنا شرعاً جائز ہو، تو اس کام میں اجارہ کرنا ، جائز ہے ۔(الكافي في فقه أهل المدينة،  جلد2، صفحہ  755،  مكتبة الرياض الحديثة، الرياض)

    علامہ محمود بن عبد العزيز ابنِ مازہ بخاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 616ھ)"المحیط البرھانی" میں لکھتے ہیں :’’وقال أبو حنيفة: لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة…وإذا استأجر رجل من أهل الذمة مسلما يضرب لهم الناقوس فإنه لا يجوز "ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لہوولعب ، مزامیر (مِیُوزِکَل آلات ) اور ڈھول وغیرہ بجانے پر اجارہ کرنا، ناجائز ہے ؛ کیونکہ یہ گناہ ہیں اور گناہ پر اجارہ  باطل ہے اور جب کسی ذمی کافر نے کسی مسلمان کو ناقوس بجانے کے لیے اجارہ پر رکھا تو یہ اجارہ ، ناجائز ہے۔ (المحيط البرهاني، كتاب الإجارات ، جلد7، صفحہ  482، ‌‌ دار الكتب العلميہ، بيروت)

    شیخ الاسلام ، اعلی حضرت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1340ھ ) فتاوی رضویہ  میں لکھتے ہیں : ’’اصل مزدوری اگر کسی فعلِ ناجائز پر ہو سب کے یہاں ناجائز، اور جائز پر ہو تو سب کے یہاں جائز، اس امر میں …نَصَارٰی وہُنُود (عیسائی و ہندو)وغیرہم سب برابر ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ ، جلد 23، صفحہ 507، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    ایک دوسرے مقام پر سوال ہوا کہ  انگریزوں کی سلائی کے کام کی نوکری کرنا یا ان کا کپڑا مکان پر لاکر سینا جائز ہے یانہیں؟ تو اس کے جواب میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’ انگریز کی سلائی کی نوکری کرنے یا گھر پر لاکر ا س کا کپڑا سینے میں کوئی مضائقہ نہیں جبکہ کسی مَحْذور شرعی(شرعی طور پر کسی ناجائز  چیز ) پر مشتمل نہ ہو۔‘‘(فتاوی رضویہ ، جلد 19، صفحہ 472، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    گناہ کے کاموں پر مدد کی ممانعت کےبارےمیں  اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ترجمہ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی (ظلم)پر باہم مدد نہ دو۔(پارہ  6،سورۃ المائدہ،الآیۃ 2)

    درر الحکام میں ہے:’’أن الإجارة لا تجوز عندنا على… المعاصي ‘‘ترجمہ: ہمارے نزدیک گناہوں پر اجارہ جائز نہیں۔(درر الحکام شرح غرر الاحکام ،کتاب الاجارہ،جلد 2،صفحہ 233، دار إحياء الكتب العربيہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم