New Bike Chand Din Chalne Ke Baad Kam Qeemat Mein Wapas Lena

 

نئی بائیک چند دن چلنے کے بعد کم قیمت میں واپس لے سکتے ہیں ؟

مجیب: عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-9086

تاریخ اجراء: 05ربیع الاول1446 ھ/10ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ ہمارا موٹر سائیکل کا شوروم ہے،ہم (cash)نقد پرموٹر سائیکل فروخت کرتے ہیں۔ بسا اوقات کچھ روز بعدہی کسٹمرموٹر سائیکل واپس کرنے آ جاتا ہے،کسٹمر نے موٹر سائیکل کچھ کلو میٹر چلایا بھی ہوتا ہے،اب کسٹمر کا اصرار ہوتا ہے کہ اسی قیمت پر واپس کریں جس پر خریدا تھا کہ ہم نے ایک دو دن ہی بس چلایا ہے،جبکہ ہم زیرو میٹر موٹر سائیکل دیتے ہیں،کسٹمر اسے چند کلو میٹر چلا لیتا ہے،اور میٹر چلنے پر اس کی زیرو میٹر والی قیمت نہیں رہتی ،کم ہو جاتی ہے،تو ایسی صورت میں ہم کم پیسے واپس کر کے موٹر سائیکل واپس رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفسِ مسئلہ جاننے سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ بائع(بیچنے والے)اورمشتری(خریدار ) کابیع تام یعنی سودا مکمل ہونے کے بعد  باہمی رضا مندی سے خریدی ہوئی چیز اور قیمت   واپس کرنا  اور بیع  کو فسخ  کرنا ،  یعنی سودا (Agreement) ختم کرنا ،شرعا ً جائز ہے ، اصطلاحِ شرع میں اسے اِقَالَہ  کہا جاتا ہے۔نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی مسلمان سے اقالہ کیا، تو  اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن  اُس کے گناہوں  کو ختم کر دے گا۔ اقالہ کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلی قیمت پر ہی چیز  کو واپس کرنا ضروری ہے ،کم یا  زیادہ   قیمت کی شرط لگانا درست نہیں ، اگر لگائی گئی   ، تو وہ شرط لَغْو  (فضول )قرار پائے گی،یعنی پھر بھی پہلی قیمت ہی لوٹاناضروری ہو گا ،بشرطیکہ بیچی گئی چیز خریدار کے قبضے میں  اسی حالت پر باقی ہو جس حالت میں عقد کے وقت تھی یعنی اس میں    کوئی عیب وغیرہ پیدا نہ ہوا ہو اور اگر  اس میں کوئی ایسا عیب پیدا ہو جائے کہ  جس کی وجہ سے مبیع (بیچی گئی چیز)کی اصل قیمت میں کمی آ جائے،  تو بیچنے والاوصول کی گئی رقم  میں سے    مارکیٹ کے  ریٹ کے مطابق بقدرِ نقصان کٹوتی  کر سکتا ہے ۔

   اب نفسِ مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ شوروم پر کھڑے زیرو میٹر موٹر سائیکل کی قیمت بنسبت استعمال شدہ موٹر سائیکل سے زیادہ  ہوتی ہے اورموٹر سائیکل کچھ گھنٹے یا کچھ دن چلنے کی وجہ سے زیرومیٹر نہیں رہتا ،اس کا شمار استعمال شدہ موٹر سائیکل میں  ہوتا ہےاور مارکیٹ میں زیرو میٹر اور استعمال شدہ  موٹر سائیکل کی قیمت میں فرق ہوتا ہے،زیرو میٹر  کی جو قیمت ہوتی ہے،چلنے کی وجہ سے وہ  کم ہوجاتی ہےاورتاجروں  کی نظر میں  قیمت کا کم ہو جاناعیب شمار کیا جاتا ہے، لہذا موٹرسائیکل چلنے کی وجہ سے مارکیٹ میں جو اس کی قیمت کم ہو ئی ہے،اتنی قیمت کی آپ کٹوتی  کر سکتے ہیں۔

   اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ فریقین پچھلے معاہدے کو ختم کرنے کی بات نہ کریں، بلکہ   نئی خرید و فروخت کر لیں، یوں کہ شے کا مالک شے کو بیچ رہا ہے اور دُکاندار خرید رہا ہے، اس  صورت میں باہمی رضا مندی سے جو بھی قیمت طے کر نا چاہیں شرعاً جائز ہے، لیکن اس نئی خریداری میں دُکاندار پہلی قیمت سے کم قیمت پر اس وقت خرید سکتا ہے ،جبکہ پچھلے سودے میں  گاہک سے مکمل قیمت وصول کر لی ہو ، ورنہ کم قیمت میں خریدنا بھی  جائز نہیں۔

   اقالہ کے جواز کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:”قال رسول اللہ: من اقال مسلما اقاله اللہ عثرته يوم  القيامة“ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی مسلمان سے اقالہ کیا، قیامت کے دن اللہ کریم اس کی لغزشیں معاف فرما دے گا۔ (سنن ابن ماجه،ج2،كتاب التجارات، ص741،مطبوعہ دار إحياء الكتب العربيہ )

   الجوہرۃ النیرۃ اور درمختار میں ہے،واللفظ للاول:”اقالة فی اللغة هی الرفع، وفی الشرع عبارة عن رفع العقد“ترجمہ: اقالہ کا لغوی معنی کسی چیز کو اٹھانا ہے اور شرع میں اس سے مراد عقد کو ختم کرنا ہے۔(الجوھرۃ النیرہ، ج1، ص207، مطبوعہ المطبعة الخيريہ)

   الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:”الاقالة عند الجمهور عود المتعاقدين الى الحال الاول بحيث ياخذ البائع المبيع والمشتری الثمن“ترجمہ: جمہور کے نزدیک اقالہ عاقدین (بائع و مشتری) کے پہلی صورت کی طرف لوٹ جانے کو کہتے ہیں، اس طرح کہ بائع مبیع اور مشتری ثمن  لے لے۔ (الموسوعة الفقهية الكويتيہ، ج2، ص23، مطبوعہ دارالسلاسل ،الكويت)

   اقالہ میں فروخت کنندہ اور خریدار کی باہمی رضامندی کے شرط ہونے کے متعلق درمختار میں ہے:” من شرائطها اتحاد المجلس ورضا المتعاقدين“یعنی مجلس کا ایک ہونااور متعاقدین (بائع و مشتری ) کا رضا مند ہونا اقالہ کے صحیح ہونے کی  شرائط میں سے ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار ، ج5، ص  121، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”وشرط صحة الاقالة رضا المتقائلين“ترجمہ: اقالہ کے صحیح ہونے کی  شرائط میں سےایک شرط  متقائلین(یعنی اقالہ کرنے والےدونوں افراد) کا رضا مند ہونا ہے۔ (الفتاوی الھندیہ، ج3، ص 157، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)

   اقالہ سابقہ قیمت پر ہونے کے متعلق اور عیب کی صورت میں قیمت میں کمی کے متعلق ہدایہ میں ہے:”الاقالۃ جائزۃ فی البیع بمثل الثمن الاول۔۔۔فان شرطا اکثر منہ او اقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الاول۔۔۔و کذا اذا شرط الاقل۔۔۔الا ان یحدث فی المبیع عیب فحینئذ جازت الاقالۃ بالاقل لان الحط یجعل بازاء ما فات بالعیب“ ترجمہ : پہلے ثمن کی مثل کے بدلے بیع میں اقالہ (یعنی عقدِ بیع ختم) کرنا جائز ہے، پس اگر انہوں نے پہلے ثمن سے زیادہ یا کم ثمن لینے دینے کی شرط لگائی ،تو شرط باطل ہوگی اور پہلے ثمن کی مثل کے عوض ہی وہ چیز لوٹائی جائے گی، اسی  طرح کم ثمن کی شرط لگانا بھی  درست نہیں ،لیکن اگر بیچی گئی چیز میں کوئی عیب پیدا ہوگیا ہو ،تو پھر پہلے ثمن (کہ جس کے عوض چیزخریدی تھی ، اس ) سے کم کے عوض اقالہ کرنا، جائز ہے، کیونکہ ثمن میں کی گئی کمی ،عیب کی وجہ سے اس چیز میں آنے والے نقصان  کا  عوض قرار دی جائے گی ۔(الھدایہ، باب الاقالہ ، ج 3، ص 55 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ، بیروت )

   فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:”اذا باع جاریۃ بالف درھم وتقایلا العقد فیہ بالف درھم۔۔۔ صحت الاقالۃ وان تقایلا بالف و خمسمائۃ صحت الاقالۃ بالف و تلغو خمس مائۃ، وان تقایلا بخمسمائۃ فان کانت الجاریۃ باقیۃفی ید المشتری علی حالھا و لم یدخل بھا عیب صحت الاقالۃ بالف و یلغو ذکر خمس مائۃ فیجب علی البائع رد الالف علی المشتری وان دخلھا عیب یصیر اقالۃبخمسمائۃ ویصیر المحطوط بازاء النقصان“ترجمہ:جب کسی شخص نے ایک ہزار  درہم کے عوض ایک  کنیز فروخت کی اور دونوں نے ہزار درہم  کے عوض اس  عقد کا اقالہ کیا،  تو یہ  اقالہ صحیح ہے اور اگر ڈیڑھ ہزار میں کیا، تو  ہزار  کے عوض اقالہ درست ہوگا اور پانچ سو کا ذکر لغو ہے   اور اگر پانچ سو میں اقالہ کیا، تو اگر کنیزمشتری کے قبضے میں اسی حال پر ہو جس حال پر بیچنے کے وقت تھی، اس میں کوئی عیب پیدا نہ ہوا ہو ،تو اس صورت میں بھی ہزار  کے عوض  ہی اقالہ درست ہوگا اور پانچ سو کا ذکر لغو ہے ،لہذا بیچنے والے شخص پر  مشتری کو ہزار درہم دینا واجب ہوگا اور  اگر  کوئی عیب پیدا ہو چکا ہو ،تو (کمی کر کے مثلاً) پانچ سو کے عوض میں اقالہ ہو جائے گا اور ثمن میں ہونے والی کمی ، مبیع میں پیدا ہونے والے نقصان کے  بدلے میں ہوگی ۔(الفتاوی التاتارخانیہ، ج9، ص 308،مطبوعہ کوئٹہ)

   عیب کی تعریف کے متعلق ہدایہ میں ہے:”(کل ما اوجب نقصان الثمن فی عادۃ التجار فھو عیب ) لان التضرر بنقصان المالیۃ  و ذلک بانتقاص القیمۃ والمرجع فی معرفتہ عرفُ اھلہ“ترجمہ :ہر وہ خامی جو تاجروں کے عُرف میں قیمت کے کم ہونے   کاسبب  بنے تو وہ "عیب " ہے ،کیونکہ مالیت میں کمی  آنے کی وجہ سے  ہی نقصان ہوتا ہے  اور مالیت میں کمی قیمت کم ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے  اور قیمت کی کمی کی پہچان و اندازہ لگانے  کے لیے وہاں کی مارکیٹ والوں کے عرف کا اعتبار ہوتا ہے ۔(الھدایہ، باب الاقالہ ، ج 3، ص 37 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ، بیروت )

   تحفۃ الفقہاء میں ہے:”كل ما اوجب نقصان القيمة والثمن فی عادة التجار فهو عيب“ترجمہ :ہر وہ خامی جو تاجروں کے عرف میں قیمت یا ثمن کے کم ہونے   کا سبب  بنے، تو وہ عیب ہے۔ (تحفۃ الفقھاء،ج2 ،ص 93،مطبوعہ  دار الكتب العلميہ، بيروت)

   گاہک  اقالہ کے بعد خود اپنی مرضی سے کچھ دنوں   کی رخصت دے دے ،تو اس کے درست ہونے کے متعلق  شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :”اما لو تقایلا ثم اجلہ قیل یصح التاجیل“ترجمہ :البتہ اگر ان دونوں نے اقالہ کرلیا، اس کے بعد مشتری نے بائع کو کچھ مدت تک کی رخصت دے دی، تو ایک قول کے مطابق یہ مدت دینا صحیح ہے ۔(شرح مجلۃ الاحکام،  الفصل الثانی فی البیع بالنسیئۃ  والتاجیل، المادۃ:245، جلد2، صفحہ 166، مطبوعہ پشاور)

   ردالمحتار میں ہے:”ان تقايلا ثم أجله ينبغی أن لا يصح الأجل عند أبی حنيفة فإن الشرط اللاحق بعد العقد يلتحق بأصل العقد عنده۔۔۔ لكن تقدم فی البيع الفاسد أنه لا يصح البيع إلى قدوم الحاج، والحصاد والدياس، ولو باع مطلقا ثم أجل إليها صح التأجيل“ترجمہ: اگر دونوں نے اقالہ کر لیا پھر مشتری نے ثمن کو مؤخر کیا ،تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چاہیے کہ یہ مؤخر کرنا درست نہ ہو، کیونکہ عقد کے بعد لاحق ہونے والی شرط آپ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اصل عقد کے ساتھ ملحق ہوتی ہے، لیکن بیع فاسد میں پہلے گزر چکا ہے کہ حاجیوں کے آنے، گندم کی کٹائی اور گہائی تک ثمن کو مؤخر کرنے کی شرط کے ساتھ بیع صحیح نہیں ہوتی اور اگر وہ مطلق بیع کرے پھر ان کے آنے تک ثمن کو مؤخر کردے ،تو یہ تاجیل درست ہے۔      (رد المحتار، کتاب البیوع،ج5، ص126،  مطبوعہ دار الفكر ،بيروت)

   بیچنے  والے کا خریدار سے باہم رضا مندی سے کمی  بیشی کے ساتھ خریدنا  ، جائز ہے ، جبکہ کمی کی صورت میں گاہک سے پہلےعقد کی مکمل قیمت وصول کر لی ہو،چنانچہ تنویر الابصارودرمختارمیں ہے:(و) ‌فسد (‌شراء ‌ما ‌باع  بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول (جاز ) لو شراه بأزيد أو ‌بعد ‌النقد،ملتقطاً ترجمہ: اور اپنی ہی فروخت کی ہوئی چیز پہلے ثمن (قیمت )سے کم میں خریدنا ادائیگی ثمن سے پہلے ہو،تو  جائزنہیں اور اگر ادائیگی کے بعد ہو یا پہلے ثمن سے زائد میں خریدا جائے ،تو جائز ہے۔ (تنور الابصار و درمختار ، کتاب البیوع ،جلد7، صفحہ269-268، مطبوعہ  کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:شراء باَقل،  قیمت ادا ہونے کے بعد بلا شبہ جائز ہے ، مثلاً:ایک چیز زید نے عمرو کے ہاتھ ہزار روپے کو بیچی عمرو نے روپے ادا کردئیے، پھر زید نے وہی چیز عمرو سے پانچ سو کو خریدلی کہ چیز کی چیز واپس آگئی اور پانچ سو مفت بچ رہے، یہ جائز وحلال ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 17،صفحہ549،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   بہارِشریعت میں ہے :خود مشتری سے اُسی دام میں یازائد میں خریدی یا ثمن پرقبضہ کرنے کے بعد (پہلی قیمت سے کم میں ) خریدی ، یہ سب صورتیں جائز ہیں۔‘‘(بھار شریعت، جلد 2 ،حصہ11، صفحہ708 ،  مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم