مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3341
تاریخ اجراء:04جمادی الاخریٰ1446ھ/07دسمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہم اگر نعت شریف پڑھیں تو اگر پڑھنے میں ہمیں کوئی پیسہ دے دے تو کیا وہ ہمارے لئے جائز ہے؟ہم نے ان سے پیسہ طلب نہیں کیا اور نہ ہی کوئی پڑھنے کا اجارہ طے کیا تھا دینے والے نے اپنی خوشی سے دیا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر فریقین کے درمیان یہ صراحتا طے ہو کہ:"ہم اتنے پیسے نعت خواں کو دیں گے" تو یہ اجارہ باطل ہوا جو کہ ناجائز ہے کیونکہ یہ نیکی کے کام پراجارہ ہے اورنیکی کے کام پراجارہ باطل ہے(سوائےمخصوص صورتوں جیسے اذان و امامت، دینی تعلیم اوروعظ کے کہ ان کی دینی ضرورت کے تحت اجازت دی گئی ہے)۔اور اگر فریقین کے درمیان صراحتا طے نہ ہو بلکہ دلالۃ طے ہو کہ وہاں دینامعروف ہے مثلا پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سےکچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا، وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملےگا۔انھوں نے اس طور پر پڑھا،انھوں نے اس نیت سے پڑھوایا، اجارہ ہوگیا،جو کہ حرام ہے اور اب دو وجہ سے حرام ہوا،ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام، دوسرا اجرت اگر عرفا معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد، یہ دوسرا حرام۔
البتہ!اگر زبان سے صراحتا نفی کردی جائے کہ کچھ بھی اجرت نہ دی جائے گی۔( نہ لفافے میں، نہ لوٹا کراورنہ کسی اورطریقے سے)تو اب جو رقم دی جائے گی اسے ناجائز اجارہ کی اجرت نہ کہا جائے گا بلکہ انعام و احسان ہی کے طور پر دینا قرار دیا جائے گا اور نعت خوان کایہ لینا جائز و حلال ہوگا۔ یونہی عام طور پر سننے والے شرکائے محفل جس طرح رقم دیں تو ان کا دینا اور نعت خواں کا لیناجائز ہے کہ اس صورت میں ان سے طاعت پر اجارہ کی صورت کا تحقق ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوتاہے۔
ناجائز اجارہ کی جو صورتیں بیان ہوئیں ان سے بچنے اور ملنے والی رقم کے جواز کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ:
مخصوص وقت کے لئے معلوم اجرت پر کسی کو نعت خوانی کے لئے نہیں بلکہ مطلق خدمت کے کام کے لئے اجیر بنالے مثلا وہ زید سے کہے کہ:"رات10سے12بجے تک1000روپے کے عوض اپنے کام کاج کے لئے آپ سے اجارہ کیا۔"زیدکہے:"میں نے قبول کیا۔"اب زید اتنے وقت کے لئے ان کا اجیر ہوگیا،وہ جو چاہیں اس سے کام لیں، اب اجارہ کے بعد وہ زید سے کہیں کہ نعت پڑھو یہ جائز ہوگا اوراس کے بدلے طے شدہ اجرت لینا، دینا بھی حلال ہوگا۔
سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فر ماتےہیں:"اصل یہ ہے کہ طاعت وعبادات پر اجرت لینا دینا(سوائے تعلیم قرآن عظیم وعلوم دین و اذان وامامت وغیرہا معدودے چنداشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری ومجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا)مطلقا حرام ہے،اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب وذکر شریف میلاد پاک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ضرور منجملہ عبادات وطاعت ہیں تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام ومحذور،۔۔۔۔اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتاہے،عرفا شرط معروف ومعہود سے بھی ہوجاتاہے،مثلا پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سےکچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملےگا۔انھوں نے اس طور پر پڑھا،انھوں نے اس نیت سے پڑھوایا،اجارہ ہوگیا،اور اب دو وجہ سے حرام ہوا،ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام دوسرے اجرت اگر عرفامعین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد،یہ دوسرا حرام۔ای ان الاجارۃ باطلۃ وعلی فرض الانعقاد فاسدۃ فللتحریم وجہان متعاقبان، وذٰلک لما نصوا قاطبۃ ان المعہود عرفا کالمشروط لفظایعنی اجارہ باطل ہے اور فرض انعقاد پر وہ فاسد ہے تو یہ اس کے حرام ہونے کی یکے بعددیگرے دو وجہیں ہیں،اور یہ اس لئے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور ومسلم لفظوں میں مشروط کی طرح ہے۔
پس اگر قرارداد کچھ نہ ہو،نہ وہاں لین دین معہود ہوتاہو توبعد کو بطور صلہ وحسن سلوک کچھ دے دیناجائز بلکہ حسن ہوتا،ھل جزاء الاحسان الا الاحسانoواﷲ یحب المحسنینoاحسان کی جزاء صرف احسان ہے اور اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو پسند فرماتاہے۔
مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے۔اب اس کے حلال ہونے کے دو طریقے ہیں اول یہ کہ قبل قراء ت پڑھنے وا لے صرا حۃً کہہ دیں کہ ہم کچھ نہ لیں گے،پڑھوانے وا لے صاف انکار کر دیں کہ تمھیں کچھ نہ دیا جا ئے گا۔اس شرط کے بعد وہ پڑھیں اور پھر پڑھوا نے وا لے بطور صلہ جو چا ہیں دے دیں یہ لینا دینا حلال ہو گا۔۔۔ دوم، پڑھوا نے وا لے پڑھنے وا لوں سے بہ تعیین وقت و اجرت ان سے مطلق کار خدمت پر پڑھنے وا لوں کو اجارے میں لے لیں مثلاًیہ ان سے کہیں ہم نے صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بعوض ایک روپیہ کے اپنے کام کاج کے لئے اجارہ میں لیا وہ کہیں ہم نے قبول کیا اب یہ پڑھنے وا لے اتنے گھنٹو ں کے لئے ان کے نو کر ہو گئے وہ جو چا ہیں کام لیں۔اس اجا رے کے بعد وہ ان سے کہیں اتنے پا رے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثوا ب فلاں کو بخش دو یا مجلس میلاد مبارک پڑھ دو یہ جا ئز ہو گا اور لینا دینا حلال۔''(ملتقطاازفتاوی رضویہ، ج19، ص486 ،487 ، 488، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
درمختار میں ہے:''و یفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآنِ والفقہ والأمامۃ و الأذان''یعنی دورِ حاضر میں تعلیم قرآن وفقہ اور امامت اور اذان پر اجرت جائز ہے۔(الدرالمختار مع ردالمحتار،ج6،ص55،دار الفکر،بیروت)
امیر اہلسنت ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ اپنے رسالہ"نعت خواں اور نذرانہ" میں تحریر فرماتے ہیں:”سامعین کی طرف سے نعت شریف پڑھنے کے دوران نوٹیں پیش کرنا اور نعت خواں کا قبول کرنا درست ہے،اگر فریقین میں طے کر لیا گیا کہ نوٹ لفافے میں ڈال کر دینے کے بجائے دورانِ نعت پیش کئے جائیں یا طے تو نہ کیا مگر دلالۃً ثابت(یعنی UNDERSTOOD) ہو کہ محفل میں بلانے والا نوٹ لٹائے گا تو اب اجرت ہی کہلائے گی اور ناجائز۔"(نعت خواں اور نذرانہ،ص7،8،مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
نر جانورسے جفتی کروانے کی اجرت لینے کاحکم
درزی کے پاس بچے ہوئے کپڑے کا حکم ؟
جو ریپرینگ کے لئےسامان دے جاتے ہیں مگرواپس لینے نہیں آتےان کا کیا کریں؟
کیا کسی چیزکے فروخت کرنے پر اجارہ کرنا درست ہے؟
ایسے چینل پرنوکری کرنا کیسا جہاں جائز و ناجائز پروگرامز آتے ہوں؟
دورانِ ڈيوٹی جو وقت نماز ميں صرف ہوتا ہے اس کی تنخواہ لينا کیسا؟
دوران اجارہ نماز میں صرف ہونے والے وقت کا اجارہ لینا کیسا؟
امام مسجد کا حج کی چھٹیوں پر کسی کو نائب بنانے اور ان دنوں کی تنخواہ لینے کا حکم