Naai(Barber) Ka Kaam Karna Kaisa Hai ?

 

حجام (نائی) کے کاروبار کا شرعی حکم

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3042

تاریخ اجراء: 01ربیع الاول1446 ھ/06ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نائی شاپ کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     نائی شاپ (حجام  کی دوکان)میں صرف جائز کام کیے جائیں، خلاف شر ع امور مثلا ًایک مٹھی سے داڑھی کم کرنا یا بالکل ہی کاٹ دینا وغیرہ سے با لکل اجتناب کیا جائے تو نائی کا کام کر نا ، جائز ہے اوراس کی آمدنی بھی جائز وحلال ہےورنہ جائز نہیں ۔

   گناہ پرتعاون کرنےسے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾ ترجمہ کنزالایمان : اور گناہ اورزیادتی پرباہم مددنہ دو۔(القرآن،پارہ 6،سورۃ المائدۃ، آیت 2)

      ناجائز کام پر اجارہ کرنے سے متعلق مجمع الانھرمیں ہے”لايجوزأخذالأجرةعلى المعاصي (كالغناء ، والنوح، والملاهي)لان المعصيةلايتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه“ ترجمہ:گناہ کے کاموں پراجرت لیناجائزنہیں ہے جیسے گانا، نوحہ اور ملاہی یعنی لہوولعب ،اس لیے کہ عقدکی وجہ سے گناہ کے استحقاق کاتصورنہیں کیاجاسکتا،پس اس پراجرت واجب نہیں ہوگی اوراگراس نے اس کواجرت دے دی اوراس نے اس پرقبضہ کرلیا تواس کے لیے حلال نہ ہوگی اور اس پر اس کے مالک کولوٹاناواجب ہوگا۔(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر، ج02،ص384،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

   ناجائزکام کرنے کے بارےمیں فتاوی رضویہ میں ہے”ملازمت دوقسم ہے : ایک وہ جس میں خودناجائزکام کرنا پڑے ۔۔۔ ایسی ملازمت خودحرام ہےاگرچہ اس کی تنخواہ خالص مال حلال سےدی جائے،وہ مال حلال بھی اس کے لئےحرام ہے اورمال حرام ہے، توحرام در حرام ۔“(فتاوی رضویہ،ج 19،ص 515،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم