Musalman Ka Ghair Muslim Se Baal Katwana

 

مسلمان کا غیر مسلم حجام(نائی) سے بال کٹوانا

مجیب:مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3044

تاریخ اجراء: 28صفر المظفر1446 ھ/03ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مسلمان مرد کا کسی عیسائی مرد سے بال کٹوانا کیسا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان مردکاکسی عیسائی سے بال کٹوانا جائز ہے،کیونکہ  مرتد کے علاوہ دیگر کفار سے دنیوی معاملات جیسے بیع، اجارہ وغیرہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ دین کا نقصان نہ ہوتا ہو،ہاں اگروہاں پرمسلمان کی دوکان بھی ہوتوکوئی شرعی عذراور حرج وغیرہ کی صورت نہ ہوتوپھرمسلمان سے ہی کٹوانے چاہییں کہ اس سے مسلمان کامالی فائدہ ہوگا۔

   بدائع الصنائع میں ہے”واسلامہ لیس بشرط اصلا ،فتجوز الاجارۃ والاستئجار من المسلم و الذمی والحربی المستامن لان ھذا من عقود المعاوضات فیملکہ المسلم والکافر جمیعا کالبیاعات“ ترجمہ:عقد اجارہ کرنے والے کا مسلمان ہونا اصلاً کوئی شرط نہیں ہے،لہٰذا کرایہ پر کوئی چیز دینا یالینامسلمان ،ذمی اور حربی مستامن،سب سے جائز ہے، کیونکہ اجارہ عقود معاوضات میں سے ہے، لہٰذا مسلمان اور کافر سب اس کے مالک ہیں،جیسا کہ بیوع  میں ہوتا ہے۔(بدائع الصنائع،ج 4،ص 176،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)             

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ’’غیر ذمی سے بھی خرید و فروخت ، اجارہ و استیجار ، ہبہ و استیہاب بشروطہا جائز اور خریدنا مطلقاً ہر مال کا کہ مسلمان کے حق میں متقوم ہو اور بیچنا ہر جائز چیز کا جس میں اعانتِ حرب یا اہانت اسلام نہ ہو، اسے نوکر رکھنا  جس میں کوئی کام  خلاف شرع نہ ہو۔۔۔ایسے ہی امور میں اجرت پر اس سے کام لینا۔‘‘ (فتاوی  رضویہ ، ج 14 ، ص 421، ر ضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں:” دنیوی معاملت جس سے دین پرضَرَرْ نہ ہو سوا مرتدین ۔۔۔ کے کسی سے ممنوع نہیں۔"(فتاوی رضویہ ،ج 24، ص  331 ، رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم