Mulazim Ka Doran e Duty Kaam Me Susti Karna Kaisa ?

ملازم کا دورانِ ڈیوٹی کام میں سُستی کرنا کیسا ؟

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی

تاریخ اجراء:     ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہماری فیکٹری میں  ملازمین کو نمازِ عصر و مغرب  کے لئے پندرہ پندرہ منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے لیکن بعض ملازمین پندرہ  منٹ کے بجائے پینتالیس منٹ لگا کر آتے ہیں۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ   ( 1 ) نماز میں فیکٹری کے دئیے ہوئے وقت سے زیادہ وقت لگا کر آنا شرعاً جائز ہے ؟    ( 2 )  جو لوگ فیکٹری کے وقت میں اپنے کام کے فرائض صحیح انجام نہیں دیتے ان کے لئے کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جواب : ڈیوٹی کے اوقات میں ملازم کے لئے مکمل طور پر تسلیم ِ نفس یعنی کام کے لئے حاضر رہنا اور دئیے گئے کام کو مکمل کرنا  ضروری ہے  یہاں تک کہ دورانِ ڈیوٹی سیٹھ کی اجازت کے بغیر نوافل پڑھنے کی بھی  شرعاً اجازت نہیں۔

صدرُالشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ” اجیرِ خاص اس مدتِ مقررہ میں اپنا ذاتی کام بھی نہیں کرسکتا اور اوقاتِ نماز میں فرض اور سنتِ مؤکدہ پڑھ سکتا ہے نفل نماز پڑھنا اس کے لئے اوقاتِ اجارہ میں جائز نہیں۔ “( بہارِ شریعت ،  2 /  161 )

   لہٰذا جو لوگ نماز میں پونہ پونہ گھنٹہ لگا کر آتے ہیں ان پر لازم ہے کہ اپنےاس غیر شرعی فعل سے توبہ کریں اور سیٹھ کی اجازت کے بغیر عرف سے ہَٹ کر جتنا وقت غائب رہے  اتنے وقت کا حساب لگا کر اپنی تنخواہ یا اجرت میں سے اس کے پیسے کٹوائیں ، پوری اجرت لینا ان کے لئے جائز نہیں۔

   اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تسلیمِ نفس نہ پائے جانے کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” اگر تسلیمِ نفس میں کمی کرے مثلا بلارخصت چلا گیا ، یا رخصت سے زیادہ دن لگائے ، یا مدرسہ کاوقت چھ گھنٹے تھا ، اس نے پانچ گھنٹے دئیے ، یا حاضر تو آیا لیکن وقتِ مقرر خدمتِ مفوّضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام اگر چہ نماز نفل یا دوسرے شخص کے کاموں میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ( متأثر )  ہوگئی ، یونہی اگر آتا اور خالی باتیں کرتا چلا جاتا ہے طلبہ حاضر ہیں اور پڑھاتا نہیں کہ اگرچہ اجرت کا م کی نہیں تسلیمِ نفس کی ہے ، مگریہ منعِ نفس ہے، نہ کہ تسلیم ، بہر حال جس قدر تسلیمِ نفس میں کمی کی ہے اتنی تنخواہ وضع ہوگی۔ “( فتاویٰ رضویہ ، 19 /  506 )

   (2) جو ملازمین ڈیوٹی کےدوران  پورا وقت کام نہیں کرتے یا کام تو کرتے ہیں لیکن عرف سے ہٹ کر کم رفتار میں کرتے ہیں اور جتنا کام کرنا چاہیے اتنا نہیں کرتے یہ لوگ شرعاً قابلِ گرفت ہیں۔ ان کے لئے حکم ہے کہ سستی و غفلت کی وجہ سے کام میں جو کمی واقع ہوئی ہے ا س کی اجرت لینے کے بھی حقدار نہیں۔ اگر لے لی ہے تو مالک کو واپس کریں یا اس سے معاف کروائیں۔

   اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ” کام کی تین حالتیں ہیں : سُست ، معتدل ، نہایت تیز۔ اگر مزدوری میں سُستی کے ساتھ کام کرتاہے گنہگار ہے اور اس پر پوری مزدوری لینی حرام۔  اتنے کام کے لائق جتنی اجرت ہے لے ، اس سے جو کچھ زیادہ ملا مستاجر کو واپس دے ، وہ نہ رہا ہو اس کے وارثوں کود ے ، ان کا بھی پتہ نہ چلے  مسلمان محتاج پر تصدُّق کرے اپنے صَرف میں لانا یا غیرِ صدقہ میں اسے صَرف کرنا حرام ہے اگرچہ ٹھیکے کے کام میں بھی کاہلی سے سستی کرتاہو ، اور اگر مزدوری میں متعدل کام کرتاہے مزدوری حلال ہے اگرچہ ٹھیکے کے کام میں حد سے زیادہ مشقت اٹھاکر زیادہ کام کرتاہو۔“( فتاویٰ رضویہ ، 19 / 407 )

   کام میں وقت کم دینے کی صورت میں تنخواہ میں سے اتنا حصہ کٹوانے کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ” مثلاً چھ گھنٹے کام کرنا تھا اور ایک گھنٹہ نہ کیا تو اس دن کی تنخواہ کا چھٹا حصہ وضع ہوگا۔“( فتاویٰ رضویہ ، 19 /  516 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم