Mobile Repairing Ke Paise Lene Ka Hukum

موبائل ریپئرنگ کے کام کی اجرت لینے کا حکم

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2904

تاریخ اجراء: 18محرم الحرام1446 ھ/25جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا موبائل ریپئرنگ  کا کام ہے،اگر کوئی شخص میرے پاس  موبائل ٹھیک کروانے آتا ہے،اور کہتا ہے کہ میرا موبائل بند ہوگیا ہے،اِسے  ٹھیک کردو،اب میں اس کا موبائل  اوزار وغیرہ سے  کھولوں لیکن اس میں کوئی نئی  چیز ڈالے بغیر ہی  اُسے  ٹھیک کردوں تو کیا  اس کام پر میں  پیسے لے سکتا ہوں یا نہیں،جبکہ میں نے اسے صحیح کرنے کیلئے کوئی  چیزاس میں  نہیں ڈالی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جھوٹ اور دھوکہ بہرصورت حرام ہے، بقیہ تفصیل یہ ہے کہ موبائل ریپئرنگ  کے کام  میں موبائل کھولا جاتا ہے ، آلات وغیرہ  کے  استعمال سے   اُسے ٹھیک کیا جاتا ہے،ضروری نہیں کہ ہر طرح کی ریپئرنگ  میں کاریگر  اپنے پاس سے  کوئی  چیز  ڈال کر ہی   اسے ٹھیک کرے ،بلکہ یہ خرابی  کی نوعیت کے اعتبار سے ہوتا ہے،   بعض دفعہ      کاریگر کبھی   اپنے  پاس سے کوئی چیز  اس میں لگاکر اُسے ٹھیک کرتا ہے،اور بعض دفعہ   کسی چیز کے  لگائے  بغیر ہی  اس کی مرمت وغیرہ  کرکے اُسے ٹھیک کردیتا ہے ،ظاہر ہے کہ  موبائل کھولنے ،اُسے  چیک کرنے،اس کی مرمت کرنے  میں کاریگر  اپنی مہارت کا  استعمال کرتا ہے ،اس کا م  میں اس کا  وقت بھی  صرف ہوتا ہے،لہذا  یہ باقاعدہ    ایک  قابل  اجارہ   ایسی منفعت ہے  جس کے بدلے   اجرت   لینا   شرعاً   جائز ہے۔  اس تفصیل کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ  اگر آپ کے پاس کوئی شخص  موبائل  ٹھیک کروانے آ تا ہے،اور آپ  اس کے موبائل کو کھول کر اس   میں کوئی چیز لگائے بغیر ہی اپنی مہارت سے اس کی خرابی کو ٹھیک کردیتے  ہیں ، تواس صورت میں  آپ    اِس کام پر ضرور  اجرت  لے سکتے ہیں، یہ  اجرت لینا آپ کیلئے  شرعاً جائز ہے،البتہ اس  میں دھوکہ سے کام نہ لیا جائے یعنی اگر  کاریگر  کو   معلوم ہو کہ اس میں کسی چیز کے ڈالنے کی ضرورت نہیں ،ویسے ہی  یہ ٹھیک ہوجائے گا،تو اب کاریگر ،  گاہک سے  جھوٹ نہ کہے کہ اس میں فلاں فلاں چیز  ڈالنی ہوگی،بلکہ جو کام ہے وہ   اس کے سامنے واضح کردے ،اور اس کے بدلے  اجرت پہلے  سے ہی طے  کرلے  کیونکہ اجرت کے بدلے  موبائل   ریپئر کرنا،عقد اجارہ ہے اور اجارے میں کام اور اس پر اجرت کا  پہلے سے ہی  معلوم و متعین   ہونا ضروری ہوتا ہے۔

   جو منفعت     شریعت اورعقل وشعور رکھنے والے لوگوں کی نظر میں قابل اجارہ  ہو،تو اس منفعت کے بدلے  اجرت  لی جاسکتی ہے،چنانچہ اجارے کی تعریف میں منفعت مقصودہ کے متعلق تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:”(ھی تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) ملتقطاً “ ترجمہ:ایسی منفعت جو عین شے سے مقصود ہو ،اس کا عوض کے بدلے مالک بنادینا اجارہ کہلاتا ہے ۔

      علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ  در مختار کی عبارت ’’ مقصود من العين‘‘ کے تحت فرماتے ہیں:’’اى فى الشرع ونظر العقلاء“یعنی شریعت  اور عقلاء کی نظر میں وہ منفعت ، منفعتِ مقصودہ ہو۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الاجارۃ،ج 6،ص 4،دار الفکر،بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:’’ومنها ان تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الاجارةويجري بها التعامل بين الناس “ ترجمہ:اجارے کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ منفعت مقصودہ  ہو کہ عادتا ً عقد اجارہ سے اس منفعت کا حصول   کیا جاتا ہو اور لوگوں کے مابین اس پر عمل جاری ہو۔(بدائع الصنائع ،کتاب الاجارۃ، ج 4، ص  192، دار الكتب العلمية، بیروت)

   اجارے میں منفعت اور اجرت کا معلوم و متعین ہونا ضروری ہے اور یہ اجارے کی شرائط میں سے ہے،چنانچہ در مختار میں ہے: ’’وشرطھا:کون الاجرۃ والمنفعۃ معلومتین لأن جھالتھما تفضی المنازعۃ‘‘ترجمہ:اور اجارے کی شرط  تو وہ منفعت اور اجرت  دونوں کا معلوم ہونا ہے،کیونکہ ان دونوں کی جہالت  جھگڑے کی طرف لے جاتی ہے۔( در مختار مع رد المحتار،ج 6،ص 5،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم