Medicine Company Mein Marketing Ki Naukri Karna Kaisa?‎

میڈیسن کمپنی میں مارکیٹنگ کی نوکری کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:lar:7102

تاریخ اجراء:22رمضان المبارک 1438ھ/07جون2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیامیڈیسن بنانے والی کمپنی میں مارکیٹنگ کی نوکری کرناجائزہے ؟

     اس نوکری میں بنیادی کام یہی ہوتاہے کہ مختلف ڈاکٹرز سے مل کرڈیل  کرناہوتی ہے کہ آپ ہماری میڈیسن سیل کروادیں اوراس کے عوض  کمپنی آپ کومختلف قسم کی سہولیات دے گی مثلا ً فریزر،گاڑی ،مختلف تفریحی مقامات کے ٹرپ،گھر،میڈیکل کے آلات وغیرہ۔

سائل:محمدعلی(لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     صورت مسئولہ میں یہ نوکری  کرناجورشوت جیسے حرام کام کی ڈیل پرمشتمل ہے، ناجائزوحرام ہے،کیونکہ شریعت مطہر ہ کااصول ہے  ہر وہ ملازمت  جس میں نا جائز کام کرنا پڑے،حرام ہے۔

     اس میں تفصیل یہ ہے کہ ڈاکٹرزحضرات کو  مختلف  کمپنیزکی طرف سے جواشیاء دی جاتی ہیں  وہ دوطرح کی ہوتی  ہیں۔

     (1)قیمتی اشیاء:مثلاًفریزر،گاڑی ،مختلف تفریحی مقامات کے ٹرپ،گھر،میڈیکل کے آلات، A.C.اوردیگر مَمالِک کے سفر کے لیے ٹکٹ وغیرہ ۔ کمپنی اسی طرح  کی مختلف اشیاء ڈاکٹرحضرات کوصرف اس لیے دیتی ہے  کہ وہ اپنی میڈیسن زیادہ سے زیادہ سیل کروائیں  تویہ اشیاء اپناکام نکلوانے  کے لیے دی جاتی ہیں اورکام نکلوانے کے لیے دینارشوت کے زمرے میں آتاہے لہذااگرڈاکٹر اس کا مطالبہ  کرے تویہ رشوت کامطالبہ ہے اوراگرمطالبہ نہ بھی کرے تب بھی صراحۃ یادلالۃ طے ہونے کی صورت میں یہ رشوت ہی ہے اوررشوت لینامطلقا ًحرام اورجہنم میں  لے جانے والاکام ہےاورجس طرح رشوت لینادیناحرام ہے اسی طرح رشوت کے لیے دلالی کرنابھی حرام  ہے اورحدیث پاک میں ان تینوں افراد(رشوت لینے والے،دینے والے اوران کے درمیان دلالی  کرنے والے )پرلعنت واردہوئی ہے۔

     یہاں یہ بات بھی واضح  رہے کہ ان اشیاء کوگفٹ  یاکمیشن  واجرت قراردینادرست نہیں ،کمیشن اس لیے نہیں کہ  ڈاکٹر جو دوائی لکھ کر دے رہا ہے وہ تو اس کا کام ہے اور وہ علاج کی رقم بھی وُصول کرتا ہے ،کمپنی کیلئے اس نے جُداگانہ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی اُجرت  وکمیشن بنتی ہو ،اورگفٹ اس لیےنہیں کہ گفٹ وہ ہوتاہےجس میں کسی شخص کو بغیرکسی عوض کسی چیزکامالک بنایاجائے جبکہ یہاں بغیرعوض نہیں بلکہ اپناکام بنانے کے لیے یہ اشیاء دی جاتی ہیں۔

     (2)دوسری وہ معمولی اشیاء:مثلاًدوائیں ،قلم اور پیڈ وغیرہ یہ اشیاء عموماً کمپنی اپنی ایڈورٹائزمنٹ کے لیےڈاکٹرحضرات کو دیتی ہے کہ اکثران میں کمپنی  کانام موجودہوتاہے اورعمومایہ اشیاء معمولی قیمت کی  ہوتی ہیں لہذااگرکمپنی اپنی پروڈیکٹ  بیچنے کاپابندنہیں کرتی تویہ بغیرکسی عوض اپنی شے کاکسی کومالک بناناشرعی نقطہ نظر سے گفٹ کے حکم میں آتاہے جیساکہ بہت سے ادارے سالانہ اپنی ڈائری جاری کرتے ہیں اور مختلف لوگوں کومفت دیتے ہیں۔لہٰذا اس مُعامَلے پرعُرف جاری ہونے کی وجہ سے ان معمولی اشیاء کا لینا اور کمپنی کا انہیں دینا جائز ہے اور یہ رشوت کے زُمرے میں نہیں آتا۔ملتقی الابحر میں ہبہ کی تعریف ان الفاظ سے کی گئی ہے:الھبۃ: ھی تملیک عین بلاعوضیعنی : کسی شخص کو بغیرعوض کسی چیز کا مالک بنا دینا ۔(ملتقی الابحرمع مجمع الانہر،کتاب الھبۃ،جلد3،صفحہ489،مکتبہ المنار،کوئٹہ)

     رشوت کی تعریف  البحر الرائق شرح کنز الدقائق،اور ردالمحتار جلد5، صفحہ362وغیرہما میں ہے:و اللفظ للاول:”ما یعطیہ الشخص للحاکم وغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی ما یرید “ترجمہ:رشوت یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو کچھ دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا حاکم کو اپنی منشاء پوری کرنے پر ابھارے۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق،کتاب القضاء،جلد6،صفحہ362،دار الکتاب الاسلامی،بیروت)

     فتاوی رضویہ میں سوال  ہے: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ رشوت کس کو کہتے ہیں؟ اور اس کا لینا کیسا ہے؟ اور کس صورت میں لیناجائزہے اور کس میں ناجائز؟

     سیدی اعلی حضرت الشاہ احمدرضاخان علیہ الرحمۃ اس کے جواب   میں  تحریرفرماتے ہیں:”رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائزنہیں جو پرایا حق دبانے کے لئے دیاجائے رشوت ہے یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیاجائے رشوت ہے لیکن اپنے اُوپر سے دفع ظلم کے لئے جو کچھ دیاجائے دینے والے کے حق میں رشوت نہیں یہ دے سکتا ہے لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔(فتاوی رضویہ ،جلد23،صفحہ597،رضافاونڈیشن،لاہور)

     مسند أحمد میں ہے : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والرائش يعني: الذي يمشي بينهما“یعنی:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےرشوت لینے والے ،رشوت دینے والے اوررائش یعنی ان دونوں کے درمیان کوشش کرنے والے (دلال )پرلعنت فرمائی۔(مسنداحمد،من حديث ثوبان ،جلد37،صفحہ85، مؤسسۃ الرسالۃ)

     مفسرقرآن شارح مشکوۃ حضرت علامہ مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے الفاظ و الرائش یعنی : الذی یمشی بینھما کی تشریح کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:” اگر یہ کلام رائش کی تفسیر و شرح ہے تو مطلب یہ ہے کہ یہاں رائش کے معنیٰ رشوت دلوانے والا ہے یعنی حاکم کا ایجنٹ و دلال جو مقدمہ والوں سے خفیہ طور پر حاکم کو رشوت دلواتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ رائش کی تفسیر نہ ہو بلکہ توسیع ہو یعنی رائش میں وہ دلال بھی داخل ہے جو فریقین اور حکام کے درمیان دلالی کرکے رشوت دلاتا ہے۔بینھما میں ھما ضمیر راشی اور مرتشی کی طرف راجع ہے۔خیال رہے کہ حرام کام کی دلالی اس کی کوشش بھی حرام ہے۔“(مراۃ المناجیح ،جلد5 ،صفحہ390،نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

سیدی اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :”رشوت لینا مطلقا گناہ کبیرہ ہے لینے والا حرام خور ہے مستحق سخت عذاب نار ہے، دینا اگر بمجبوری اپنے اوپر سے دفع ظلم کو ہو تو حرج نہیں، اور اپنا آتا وصول کرنے کو ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح کاظلم کرنے کے لیے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اشد غضب و انتقام ہے، فی وصایا الھندیۃ عن فتاوی الإمام قاضیخان إن بذل المال لإستخراج حق لہ علیٰ اٰخر رشوۃ و إن بذل لدفع الظلم عن نفسہ و مالہ لا یکون رشوۃ ترجمہ:فتاوی ہندیہ کی کتاب الوصایا میں فتاوی  امام قاضی خان سے منقول ہے کہ دوسرے پر اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کرے تو رشوت ہے اور اگر اپنے پر ہونے والے ظلم یا اپنے مال پر ناجائز دخل کو ختم کرنے کے لیے مال خرچ کرے تو یہ رشوت نہ ہو گی ۔(فتاوی رضویہ ،جلد 18،صفحہ 469، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

     امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”وہ کام جس میں خودنا جائز کام کرنا پڑے،جیسے یہ ملازمت جس میں سود کا لین دین،اس کا لکھنا پڑھنا،تقاضا کرنا اس کے ذمہ ہو،ایسی ملازمت خود حرام ہے اگرچہ تنخواہ خالص ما ل حلال سے دی جائے وہ مال حلال بھی اس کے لئے حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد19،صفحہ515،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

     امیراہل سنت  حضرت مولاناالیاس عطارقادری دام ظلہ تحریرفرماتے ہیں:” ڈاکٹرز کو دواؤں کی کمپنی کی جانب سے تحفۃً جودوائیں ،گھڑی، قلم اور پیڈ وغیرہ ملتے ہیں وہ عُمُوماً معمولی ہوتے ہیں اور کمپنی یہ اشیاء اپنی مشہوری کیلئے دیتی ہے کیونکہ اکثر اوقات ان پر کمپنی کانام بھی موجود ہوتا ہے جیسا کہ بہت سے ادارے سالانہ اپنی ڈائری جاری کرتے ہیں اور مختلف لوگوں کومفت دیتے ہیں۔لہٰذا اس مُعامَلے پرعُرف جاری ہونے کی وجہ سے ان معمولی اشیاء کا لینا اور کمپنی کا انہیں دینا جائز ہے اور یہ رشوت کے زُمرے میں نہیں۔

     دوا کی کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹروں کو رِشوت: اس کے علاوہ کار، A.C.اوردیگر  مَمالِک کے سفر کیلئے ٹکٹ وغیرہ عُمُوماً کمپنی کی جانب سے تحفۃً نہیں دیا جاتاکیونکہ ڈاکٹر جو دوائی لکھ کر دے رہا ہے وہ تو اس کا کام ہے اور وہ علاج کی رقم بھی وُصول کرتا ہے ۔ کمپنی کیلئے اس نے جُداگانہ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی اُجرت بنتی ہو لہٰذا شرعاً یہ کمیشن یا اُجرت نہیں۔ ہاں اگر رِشوت ہی کو کمیشن کہیں تو اور بات ہے جیسا کہ یہ بھی ہمارے عُرف ہی میں ہے کہ بعض اوقات جب پولیس کسی کا کام کروادیتی ہے تو اس پر رِشوت لیتی ہے مگر اسے رشوت کہنے کے بجائے اپنے حق یا اپنےکمیشن کا نام دیتی ہے تو ایسا کمیشن بھی رِشوت ہی ہے ۔ کمپنی کے مختلف چیزیں دینے کا مقصد صرف اپنی میڈیسن (دوائیں)زیادہ سے زیادہ بکوانا ہوتا ہے توکام نکلوانے کیلئے دینا رِشوت ہے لہٰذا ڈاکٹر کمیشن کامطالبہ کرے تو رِشوت کا مطالبہ ہے اوراگر مطالبہ  نہ بھی کرے تب بھی صَراحَۃً یا دَلالَۃً طے ہونے کی(یعنی کھلے لفظوں میں یا جو علامت سے ظاہر ہو، UNDERSTOOD ہو اُس)صورت میں رِشوت ہی ہے اور رِشوت حرام ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں ،صفحہ374،مکتبۃ  المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم