Masnoi Andaz Ki Digital Marketing Me Hissa Lene Walo Ka Sharai Hukum

مصنوعی انداز کی ڈیجیٹل(Digital) مارکیٹنگ میں حصہ لینے والوں کا شرعی حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0111

تاریخ اجراء:30ربیع الآخر 1445ھ/15نومبر 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل کئی ارننگ (Earning) کمپنیاں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔  بعض کمپنیوں میں تو ابتداءً کچھ بھی انویسٹ(Invest) نہیں کرنا ہوتا جبکہ اکثر کمپنیوں میں ابتداءً کچھ رقم انویسٹ کرنی ہوتی ہے جو کہ ناقابل واپسی (Non-Refundable) ہوتی ہے۔  انویسٹ کی رقم اپنے اپنے پیکیج (Package)کے حساب سے کم  زیادہ ہوتی ہے۔  کم سے کم 3000 اور زیادہ سے زیادہ لاکھوں روپے تک کے پیکجز (Packages) ہوتے ہیں،ان میں ارننگ(Earning)  کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ کمپنی کی جانب سے مختلف ٹاسک  (Task)دیے جاتے ہیں، مثلاً:مختلف ویڈیوز(Videos)لائک (Like)کرنا، مختلف چینلز(Channels) سبسکرائب (Subscribe) کرنا وغیرہ ۔

   ٹاسک(Task) پورا کرنے کے بعد کمپنی کو اس کے اسکرین شارٹ(Screenshot) بطور ثبوت بھیجنے ہوتے ہیں،جس کے بعد  طے شدہ رقم بطور پروفٹ(As Profit) دی جاتی ہے۔ جو جتنی زیادہ رقم والا پیکیج(Package) لیتا ہے اسے اتنے ہی زیادہ ٹاسک (Task) دیے جاتے ہیں اور اسی حساب سے اس کی زیادہ ارننگ (Earning) ہوتی ہے ۔  بعض کمپنیوں میں  ارننگ(Earning)  بڑھانے کے لئے  یہ آپشن(Option) بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنے ریفرل کوڈ (Referral Code)سے جتنے افراد کو اس کمپنی میں جوائن  (Join)کروائیں گے اس کی انویسٹمنٹ(Investment) کا دس فیصد کمیشن بھی آپ کو ملے گا۔ کیا مذکورہ طریقہ کار کے مطابق  انکم حاصل کرنا ،جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں ویڈیوز (Videos)لائک (Like)کرنے، چینلز(Channels) سبسکرائب (Subscribe) کرنے پر اجارہ کرنا اور اس سے انکم حاصل کرنا، ناجائز و حرام ہے نیز دیگر افراد کوایسی کمپنیوں کا ممبر بنانا انہیں گناہ کی دعوت دینا ہے اور اس پر کمیشن حاصل کرنا بھی ناجائز و حرام ہے۔

   مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اجارہ درست ہونے کے لئے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ جس کام پر اجارہ کیا جارہا ہے وہ شریعت کی نظر میں منفعت ِمقصودہ ہو، عقل وشعور رکھنے والے لوگ اسے قابل اجارہ کام سمجھتے ہوں ۔  پوچھی گئی صورت میں محض ویڈیوز لائک کرنا،چینل سبسکرائب کرنا ایساکوئی قابل اجارہ کام نہیں جسے کرنے کے بعد کوئی شخص اجرت کامستحق ٹھہرے  لہٰذااس طرح پیسے کمانا شرعاً جائزنہیں۔  نیزابتداء میں کچھ رقم انویسٹ کرنے کی شرط لگانا شرطِ فاسد ہے۔ ابتدامیں دی جانے والی  رقم  کالین دین کسی جائزعقدِشرعی کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے  شرعاً باطل ہے۔  کمپنی پر لازم ہے کہ باطل طریقے سے لی گئی رقم   مالک کو واپس کرے ۔

   دوسرے افراد کو کمپنی کا ممبر بنانے پر جو کمیشن(Commission) رکھا گیا ہے،ایک تو ان کاموں پر کمیشن دینا ’’کمیشن‘‘ کے شرعی اصولوں کے بھی خلاف ہے نیز پس پردہ(behind the scene) یہاں بھی نیٹ ورک مارکیٹنگ(Network Marketing)  کمپنیوں کی طرح ایک لالچ و طمع کا جال بچھایا گیا ہوتاہے تاکہ لوگ اپنے کمیشن کی خاطر دوسروں کو گھیر کر کمپنی سے وابستہ کرتے چلے جائیں اور کمپنی کے پاس لاکھوں روپے بغیر محنت کے جمع ہو جائیں۔ نتیجتاً ایسی کمپنیاں چند ماہ گزرنے کے بعد لوگوں کے لاکھوں، کروڑوں روپے لے کر بھاگ جاتی ہیں۔

   گناہ کے کاموں پر تعاون کرنے سے متعلق قرآن کریم میں ہے:’’وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَان‘‘ترجمہ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(پارہ:06، سورہ المائدہ،آيت:02)

   باطل طریقے سے دوسروں کا مال نہ کھانے سے متعلق حکم قرآنی ہے:’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ‘‘ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو!  آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔ (پارہ:05،سورہ النساء،آيت:29)

   دھوکہ دینے والوں کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ليس منا من غش “یعنی:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو دھوکہ دہی کرے۔(سنن ابی داود، جلد 3، صفحہ 272،مطبوعه بیروت)

   بغیر کسی سببِ شرعی کے دوسروں کا مال لینے سے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’لايجوز لاحد من المسلمين اخذ مال احد بغير سبب شرعى“ یعنی:کسی مسلمان کے لئے دوسرے کامال بغیر سبب شرعی کے لینا جائز نہیں۔(رد المحتار مع درمختار ، جلد 4، صفحہ 61،مطبوعہ بيروت)

   اجارے کی تعریف بیان کرتے ہوئے عین شےسے منفعت مقصودہ اورغیرمقصودہ حاصل کرنے سے متعلق در مختار میں ہے:”(تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استاجر ثيابا او اوانى ليتجمل بها او دابة ليجنبها بين يديه اودارا لاليسكنها او عبدا او دراهم او غيرذلك لاليستعمله بل ليظن الناس انه له فالاجارة فاسدة فى الكل، ولا اجر له لانها منفعة غير مقصودة من العينیعنی: ایسی منفعت جو عین شے سے مقصود ہو اس کا عوض کے بدلے مالک بنادینا اجارہ کہلاتا ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے کپڑے یا برتن سجاوٹ کے لئے کرائے پر لئے یا جانور کو برابر میں  چلانے کے لئے کرائے پر لیا یا  گھر ، غلام اور درہم وغیرہ کو اس غرض سے کرائے پر لیا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ سب اسی کا ہے تو ان تمام صورتوں میں اجارہ فاسد ہوگا، اس صورت میں کوئی اجرت نہیں ملے گی کیونکہ یہ ایسی منفعت ہے جو عین شے سے مقصود نہیں۔

   مقصود من العين کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اى فى الشرع ونظر العقلاءیعنی:عین شے سے جو منفعت مقصود ہو وہ شریعت  اور عقلاء کی نظر میں منفعتِ مقصودہ ہو۔

   ولا اجر له کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اى ولو استعملها فيما ذكرهیعنی:اگر چہ مستاجر نے اجارے پر لی ہوئی چیز کو اس غیر مقصود کام میں استعمال کیا ہو( پھر بھی اسے اجرت نہیں ملے گی)۔ (رد المحتار مع درمختار ، جلد6، صفحہ 04،مطبوعہ بیروت)

   اجارے کی شرائطِ صحت بیان کرتے ہوئے بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ومنها ان تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الاجارة“یعنی:اجارہ درست ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس نفع کو حاصل کرنے کے لئے اجارہ کیا جارہا ہو،  عادتاً عقدِ اجارہ سے وہ منفعت مقصود ہو۔ (بدائع الصنائع ، جلد4، صفحہ 192،مطبوعہ بیروت)

   اسی طرح کے سوال کے جواب میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اول کے دو چار کچھ حرام مال کی جیت میں رہیں گے، آخر میں بگڑے گا۔جس جس کا بگڑے گایہی اکلِ مال بالباطل ہےجسے قرآن عظیم نے حرام فرمایاکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔) یہی غرر و خطر و ضرار و ضرر میں پڑنا اور ڈالنا  ہے جس سے صحاح احادیث میں نہی ہے۔۔۔یہاں ہر پہلا اپنے نفع کے لئے دوسرے پانچ کا گلا پھانسے گا ۔۔۔تو یہاں خطر و ضررو ضرار و غش سب کچھ ہے۔(فتاوی رضویہ ، جلد 17، صفحہ 331،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن ،لاھور ملتقطا)

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ  بہارشریعت میں فرماتے ہیں:”جس نفع پر عقد اجارہ ہو وہ ایسا ہونا چاہیے کہ اُس چیز سے وہ نفع مقصود ہواور اگرچیز سے یہ منفعت مقصود نہ ہو جس کے لیے اجارہ ہوا تو یہ اجارہ فاسد ہے مثلاکسی سے کپڑے اور ظروف کرایہ پر لیے مگر اس لیے نہیں کہ کپڑے پہنے جائیں گے،  ظروف استعمال کیے جائیں گے بلکہ اپنا مکان سجانا مقصود ہے یا گھوڑا کرایہ پر لیا مگر اس لیے نہیں کہ ا س پر سوار ہوگا بلکہ کوتل چلنے کے لیے یامکان کرایہ پر لیا اس لیے نہیں کہ اس میں رہے گابلکہ لوگوں کے کہنے کو ہوگاکہ یہ مکان فلاں کا ہے،  ان سب صورتوں میں اجارہ فاسد ہے اور مالک کو اُجرت بھی نہیں ملے گی اگرچہ مستاجر نے چیز سے وہ کام لیے جس کے لیے اجارہ کیا تھا ۔“(بهار شریعت، جلد 3، صفحہ 107،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم