Masjid Ki Dukan Salon Ke Kaam Ke Liye Kiraye Par Dena

مسجد کی دُکان حَجام(سیلون) کا کام کرنے والے کو کرائے پر دیناکیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-526

تاریخ اجراء:21 صفر المظفر1446ھ/27 اگست2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد  کے نیچے مسجد کی پانچ دُکانیں ہیں، جس کا کرایہ مسجد میں جاتا ہے،پانچ دُکانوں میں ایک دُکان  حَجام(سیلون )کا کام کرنے والے کو کرایہ پر دی   ہوئی ہے اور وہ اس میں لوگوں کی    شیو یعنی  داڑھی  بھی مونڈتا ہے،تو  کیا شرعی اعتبار سے  مسجد کی دکان،حجام کو کرایہ پر دینا جائز ہوگا یا  نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   داڑھی مُونڈنے والے حجام کو اسی طرح کے کاموں کے لیے مسجد کی دُکان کرایے پر دینا انتہا درجے کی بدعقلی اور ناسمجھی ہے کہ جب مسجد ہی کی دکان میں حرام کام جاری ہوں گے تو گناہ سے بچنے کا ذہن کہاں بنے گا؟ ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ حجام  (سیلون) کے کام میں  جہاں جائز امور  جیسے بالوں کی کٹنگ  وغیرہ کے کام ہوتے ہیں،وہیں پر  بہت سے ناجائز کام جیسے  داڑھی کو   ایک مٹھی سے کم کرنا،یا  پوری  ہی شیو کردینا ،یونہی  داڑھی اور سر کے بالوں میں سیاہ  خضاب،یا  کالی مہندی وغیرہ  لگانے  جیسے ناجائز و حرام امور  کا بھی   ارتکاب کیا جاتا ہے۔مگر  اس کے باوجودحکمِ شرعی کے اعتبار سے  سیلون کے کام کے لیے دکان کرائے پر دینا  حرام نہیں، لیکن مسلمانوں  کی بدخواہی ضرورہے جس سے بچنا چاہیے۔ 

   بحرالرائق،مجمع الانہر،رد المحتار میں ہے:واللفظ للبحر:’’جاز إجارة البيت لكافر ليتخذ معبدا أو بيت نار للمجوس أو يباع فيه خمر في السواد وهذا قول الإمام ۔۔۔وله أن الإجارة على منفعة البيت ولهذا تجب الأجرة بمجرد التسليم ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فيه‘‘ترجمہ: کافر کو(شہر سے متصل ) گاؤں اور آبادی میں  گھر کرایہ پر دینا  تاکہ وہ اس میں عبادت خانہ  بنائے،یا  مجوسیوں کے لیے آتش کدہ  بنائے،یا اس گھر میں شراب بیچی جائے،تو یہ جائز ہے،اور  یہ امام  اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ اور  امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ اجارہ  تو گھر کی منفعت  پر ہوا ہے،اسی وجہ سے صرف گھر سُپرد کردینے سے اجرت واجب ہوجائے گی، اور اِس(یعنی فی نفسہ  گھر کی منفعت  پر اجارہ کرنے ) میں کوئی گناہ نہیں،گناہ  تو کرایہ پر لینے والے کے فعل میں ہے   اور وہ اس میں مختار ہے۔(البحرا لرائق،جلد8،صفحہ230،دارالکتاب الاسلامی،بیروت)

   مبسوط سرخسی میں ہے:’’ولا بأس بأن يؤاجر المسلم دارا من الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر، أو عبد فيها الصليب،أو أدخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم إثم في شيء من ذلك؛ لأنه لم يؤاجرها لذلك والمعصية في فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار فلا إثم على رب الدار في ذلك‘‘ترجمہ:مسلمان کا  ذمی کو  گھر کرایہ پر دینا تا کہ وہ اس میں رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں،اب اگر وہ اس  گھر میں شراب پیئے ،یا صلیب کی پوجا کرے،یا  اس میں خنزیر لائے،تو ان  میں سے کسی چیز کی وجہ سے بھی مسلمان کو گناہ نہیں ہوگا،کیونکہ اُس نے اِن کاموں کے لیے گھر کرایہ پر نہیں دیا،گناہ تو کرایہ پر لینے والے کے فعل میں ہے،اور اس کا وہ فعل گھر کے مالک  کے ارادے کے بغیر ہے ،تو اس کی وجہ سے  گھر کے مالک   پر کوئی  گناہ نہیں ہوگا۔(مبسوط سرخسی، جلد16،صفحہ39،دارالمعرفہ،بیروت)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  سے   فتاویٰ امجدیہ میں تصویر  کھینچنے والے کو مسجد کی دکان کرائے پر دینے سے متعلق سوال ہوا،تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:”اس شخص کو دکان کرایہ پر دی جاسکتی ہے، مگر یہ کہہ کر نہ دیں کہ اس میں تصویر کھینچئے۔اب یہ اس کا فعل ہے کہ تصویر بناتا ہے اور عذاب آخرت مول لیتا ہے۔پھر بھی بہتر یہ ہےکہ مسجد کے آس پاس  خصوصاً دکانِ مسجد کو محرمات سے پاک رکھیں اور ایسے کو کرایہ پر دیں جو جائزپیشہ کرتا ہو۔“(فتاویٰ امجدیہ،جلد 3صفحہ272،مکتبہ رضویہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم