Kya Broker Dono Taraf Ki Brokery Le Sakta Hai?

کیا بروکر دونوں طرف سے بروکری لے سکتا ہے ؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Har-5205

تاریخ اجراء:05شعبان المعظم1442ھ/20مارچ2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اناج کا ایک بروکرجس کو خریدار ریٹ دیتاہےکہ مثلاً: مجھے 500روپے من کے حساب سےگندم دلادو،اوربیچنےوالااپنے ریٹ دیتاہےکہ مثلا:600روپے من کےحساب سے میری گندم فروخت کرادو۔ بروکراپنی محنت اور کوشش سےدونوں پارٹیوں کوملوادیتاہےاوریوں دونوں پارٹیوں کےدرمیان سودا ہوجاتاہے،اوربروکردونوں سے بروکری وصول کرتاہے۔کیابروکرکادونوں پارٹیوں سے بروکری لیناجائزہے؟جبکہ مارکیٹ میں یہ ہی رائج ہےکہ اس طرح کی صورت میں دونوں طرف سے بروکری لی جاتی ہے۔

   نوٹ:دونوں پارٹیوں کے درمیان سوداطےکروانےمیں بروکرکسی بھی پارٹی کی طرف سے عاقد(سودا کرنے والا )نہیں  بنتا،عاقددونوں پارٹیاں خود ہی ہوتی ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بروکرجب کسی ایک پارٹی کی جانب سےعقدکرے،تواسی پارٹی سے بروکری لینےکامستحق ہے،جس کی طرف سےاس نےعقد کیا،دوسری پارٹی سےنہیں۔چنانچہ العقودالدریۃ میں ہے:’’الدلال إذا باع العين بنفسه ثم أراد أن يأخذ من المشتري الدلالة ليس له ذلك، لأنه هو العاقد حقيقة وتجب على البائع الدلالة؛ لأنه فعل بأمر البائع‘‘ بروکرجب چیز کوبذات خودفروخت کرے،پھرچاہےکہ مشتری سےبھی بروکری لے،تویہ اس کےلیےجائزنہیں،اس لیےکہ حقیقۃ وہ ہی عاقدہے،اوربائع پربروکرکی اجرت واجب ہے،اس لیےکہ بروکرنےاس کےحکم سےکام کیاہے۔(تنقیح الفتاوی الحامدیۃ،ج1،ص445،مطبوعہ کراچی)

   ہاں اگربروکرکسی پارٹی کی طرف سےعاقدنہ ہو،بلکہ عاقددونوں پارٹیاں خودہی ہوں اوربروکران کےدرمیان سودا کروانےکےلیےاپنا وقت صرف کرے،محنت و بھاگ دوڑکرے،تواس صورت میں بروکرکادونوں پارٹیوں سے بروکری لیناجائزہے۔لیکن یاد رہے بہر دو صورت بروکرکوصرف اتنی ہی اجرت دی جائےگی،جتنی اجرت اس کام کی عرفاً دی جاتی ہے،مقررہ اجرت اگرمعروف اجرت سےزیادہ ہو،تو وہ نہیں دی جائے گی ،البتہ اگر مقررہ اجرت، معروف اجرت سےکم ہو، تو پھر مقررہ اجرت ہی دی جائے گی۔

   دوطرفہ بروکری سے متعلق علامہ شامی علیہ الرحمۃ ایک سوال کا جواب دیتےہوئےارشادفرماتےہیں:’’ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يضاف إلى العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما‘‘اوراگربروکربائع اورمشتری دونوں کےلیےبھاگ دوڑ کرے،اوربائع بذات خود عقدبیع کرے،(تواجرت سے متعلق معاملہ)عرف کی طرف پھیراجائےگا،اگراس صورت میں بروکری صرف بائع پرہوتی ہے،تواسی پرہوگی اوراگربروکری مشتری پرہوتی ہے،تواس پرہوگی اوراگربائع اورمشتری دونوں پرہوتی ہے،تودونوں پرہوگی۔(تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ،ج1،ص445مطبوعہ   کراچی)

   بروکر کی اجرت کے بارے میں خانیہ میں ہے:’’ان کان الدلال عرض تعنی و ذھب فی ذلک روزکارہ کان لہ اجر مثلہ بقدر عنائہ و عملہ‘‘اگر روزگار کے سلسلہ میں بروکر نے محنت کی اور آیا گیا ،تو اس کی محنت اور عمل کے مطابق اجرت مثل ہوگی۔(ملخصاً،فتاوی قاضی خان،ج3،ص229،مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’(بروکرنے) اگر بائع کی طرف سے محنت و کوشش و دوا دوش میں اپنا زمانہ صرف کیا ،تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا،یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے،اس سے زائد نہ پائے گا، اگرچہ بائع سے قرارداد کتنے ہی  زیادہ کا ہو اور اگر قرار داد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہو چکا ۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج19،ص453،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم