Kaam Se Pehle Ujrat Dene Ki Shart Par Is Me Kami Karwana

کام سے پہلےاجرت  دینے کی شرط پراس میں کمی کروانا

مجیب:  ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor.12229

تاریخ اجراء:     09 ذوالقعدۃ الحرام 1443 ھ/09 جون 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ  ہم کپڑا ڈائنگ(یعنی رنگ) کرواتے ہیں ،اس کا مارکیٹ ریٹ مثلاً :ایک کپڑےکا دس(10)  روپےہے ، ہم اس سے کہتے ہیں کہ آپ ہمیں نو(09)روپے فی کپڑا لگائیں ، ہم آپ کو اجرت ایڈوانس دیں گے، تو اس کا شرعی حکم کیاہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عقدِ اجارہ میں جن چیزوں سے اجرت کا استحقاق ہوتا ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اجرت پیشگی دینا مشروط ہو، لہٰذا کپڑارنگنے والے سے اجرت میں کمی کروانااورایڈوانس اجرت دینے کی شرط لگانا شرعی اعتبار سے جائز ہےاور سود میں داخل نہیں کہ یہ دیا جانے والا ایڈوانس قرض نہیں ،بلکہ اجرت ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی چیز نقد میں سستی اور ادھار میں مہنگی بیچنا کہ اس کے متعلق فقہاء نے صراحت فرمائی کہ یہ سود میں داخل نہیں۔

   ہدایہ شریف میں ہے:”الاجرۃ لاتجب بالعقد وتستحق باحدی معانی ثلاثۃ اما بشرط التعجیل او بالتعجیل من غیر شرط او باستیفاء المعقود علیہ “یعنی محض عقد سے اجرت واجب نہیں ہوتی ،بلکہ تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز پائی جائے ،تواجرت کا استحقاق ہوگا ،یاتو پیشگی دینے کی شرط لگائی ہویا بلا شرط ہی پیشگی اجرت دے دی یا کام پورا ہوگیا۔     (ھدایہ آخرین ، صفحہ 297،مطبوعہ لاھور)

   درر الحکام شرح مجلہ میں ہے:”ان الاجارۃ عقد معاوضۃ فلایکون شرط التعجیل فی الاجرۃ مخالفا لمقتضی العقد“یعنی اجارہ عقدِ معاوضہ ہے ،تو اجرت میں تعجیل کی شرط لگانا مقتضائے عقد کے خلاف نہیں ہوگا۔(درر الحکام شرح  مجلۃ الاحکام ،جلد1،صفحہ 531، مطبوعہ بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:”ان شرط فیہ تعجیل البدل فعلی المستاجر تعجیلھا والابتداء بتسلیمھا سواء کان ماوقع علیہ الاجارۃ شیئا ینتفع بعینہ کالدار والدابۃ وعبد الخدمۃ اوکان صانعا او عاملا ینتفع بصنعتہ او عملہ کالخیاط والقصار والصباغ والاسکاف“یعنی اگر پیشگی بدل کی شرط لگائی ، تو مستاجر پر پیشگی اجرت دینا اوررقم حوالے کرنالازم ہے، خواہ جس چیزپر اجارہ ہوا بعینہ اسی سے انتفاع حاصل کیا جائے، جیسے:گھر ،جانور،خادم یا پھر وہ صانع یا عامل ہو کہ اس کی صنعت اور کام سے انتفاع کیا جائے ،جیسے:درزی، دھوبی ، رنگریز  اور موچی۔ (بدائع الصنائع ، جلد6،صفحہ 41،مطبوعہ بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:”الاجرۃ فی الاجارات معتبرۃ بالثمن فی البیاعات لان کل واحد من العقدین معاوضۃ المال بالمال“یعنی اجارہ میں اجرت کو بیع میں ثمن پر قیاس کیا جائے گا ،کیونکہ ان میں سے ہر ایک معاوضۃ المال بالمال ہے۔(بدائع الصنائع، جلد6،صفحہ 18،19، مطبوعہ بیروت)

   ایک ہی چیز نقد میں سستی اور ادھار میں مہنگی بیچنے کے  متعلق فتح القدیر میں ہے: ” ان كون الثمن على تقدير النقد الفا وعلى تقدير النسيئة الفين ليس فی معنى الربا “ یعنی کسی چیز کی قیمت نقد کی صورت میں ایک ہزار اور ادھار کی صورت میں دو ہزار ہو ، تو یہ سود کے معنی میں داخل نہیں ۔ ( فتح القدیر ، جلد 6 ، صفحہ 410 ، مطبوعہ  کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم