Hajj o Umrah Travel Agency Agent Ki Job Ka Sharai Hukum?

 

حج وعمرہ ٹریول ایجنسی والوں کا ایجنٹ بن کر کام کرنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3084

تاریخ اجراء: 15ربیع الاول1446 ھ/20ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حج و عمرہ ٹریول ایجنسی والوں کےساتھ کام کرنا  یعنی ان کا ایجنٹ بننا  کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حج وعمرہ ٹریول ایجنسی والوں کا ایجنٹ بننا جائز ہے ،اب اگر اس کام میں  بھاگ دوڑوغیرہ  قابل معاوضہ محنت کرنی پڑے تو اس صورت میں اس کا کمیشن لینا بھی جائز ہو گااور اگرکوئی قابل معاوضہ محنت نہ کی ،صرف بیٹھے بیٹھے مشورہ دے دیا وغیرہ تو اس صورت میں کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔ اور کمیشن کے لیے ضروری ہے کہ کمیشن اتنی ہی طے کی جائے جتنی اس مقام پر، اس طرح کے کام کی عموماً لی جاتی ہے۔

   علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ الرحمہ درمختار میں فرماتے ہیں :" ان دلنی علی کذا فلہ کذا فدلہ فلہ اجر مثلہ ان مشی لاجلہ ،من دلنی علی کذا فلہ کذا فھوباطل ولااجر لمن دلہ الااذاعین الموضع"ترجمہ:اگر کوئی کہے کہ میری اس کام میں تو رہنمائی کرتو تیرے لئے اتنی اجرت ہے تو اگر یہ اس کے ساتھ چل کر جا ئے اور رہنمائی کرے تو اس کو اجرتِ مثل ملے گی ،اور جس نے یہ کہا اگر تو میری رہنمائی کرے تو اس پر تیرے لئے اتنی اجرت ہے تویہ باطل ہے اور دلالت کرنے والے کے لئے کوئی اجرت نہیں ہے مگر یہ کہ وہ جگہ معین کردے ۔

   اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ ردالمحتار میں فرماتے ہیں :"فالاجارۃ باطلۃ لان الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر ،وان قال۔۔۔ لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلک کذا ،ان مشی لہ فدلہ فلہ اجرالمثل للمشی لاجلہ لان ذلک عمل یستحق بعقد الاجارۃ "ترجمہ:مذکورہ صورت میں اجارہ باطل ہوگا،کیونکہ محض بتانا اور اشارہ کرنا ایسا عمل نہیں ہے جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو ۔اوراگر کسی نے ایک خاص شخص کو کہا اگر تو میری فلاں چیز پر رہنمائی کرے تو اتنی اجرت دوں گا ،اگر وہ شخص چل کر رہنمائی کرے تو اُس کو مثلی اجرت دینا ہو گی کیو نکہ وہ اس کی خاطر چل کر جائے گا کیو نکہ چلنا ایک ایسا عمل ہے جس پر عقد اجارہ میں اُجرت کا مستحق ہو گا۔(رد المحتار  علی الدرالمختار ،ج 6،ص 95،دارالفکر،بیروت )

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:"اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلاً آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے، خرید لینی چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے ، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔"(فتاوی رضویہ، ج 19،ص 452،453،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم