Ghair Muslim Se Ghar Kiraya Par Lena Kaisa?

 

غیر مسلم سے گھر کرایہ پر لینا

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3293

تاریخ اجراء: 20جمادی الاولیٰ 1446ھ/23نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کسی عیسائی کے گھر کرائے پر رہنا اور اس سے لین دین کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عیسائی کا گھر کرائے پر لینا جائز ہے جب کہ جائز طریقے سے ہو اور کسی ناجائز بات کے ساتھ مشروط نہ ہو کہ عاقدین کا مسلمان ہونا اجارے کے لئے شرط نہیں ہے اور عیسائی سے لین دین  وغیرہ دنیوی معاملات کرنا جائز ہےکہ دنیوی معاملت جس سے دین پرضَرَرْ نہ ہو سوا مرتدین کے کسی سے ممنوع نہیں ۔

     بدائع الصنائع میں ہے:”واسلامہ لیس بشرط اصلا فتجوز الاجارۃ والاستئجار من المسلم و الذمی والحربی المستامن لان ھذا من عقود المعاوضات فیملکہ المسلم والکافر جمیعا کالبیاعات یعنی:عقد اجارہ کرنے والے کا مسلمان ہونا اصلاً کوئی شرط نہیں ہےلہٰذا کرایہ پر دینا یا کرایہ پر لینا مسلمان ،ذمی اور حربی مستامن سب سے جائز ہے کیونکہ اجارہ عقود معاوضات میں سے ہے لہٰذا مسلمان اور کافر سب کو مالک بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ عقود بیع میں ہوتا ہے۔(بدائع الصنائع، جلد 5،صفحہ528،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:"دنیوی معاملت جس سے دین پرضَرَرْ نہ ہو سوا مرتدین ۔۔۔ کے کسی سے ممنوع نہیں۔ (فتاوی رضویہ ،جلد24، صفحہ 331 ، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم