Ek Shakhs Ki Zameen Aur Dusre Ka Kharcha Ho To Muzariat Ka Hukum

 

ایک شخص کی زمین اور دوسرے کا خرچہ ہوتو مزارعت کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8976

تاریخ اجراء: 28 ذوالحجۃ الحرام1445ھ/05جولائی  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  اگر دو بندے یوں عقدِ مزارعت کریں کہ  مالکِ زمین صرف زمین دے اور فریقِ ثانی یعنی مزارِع تمام اخراجات اٹھائے، یعنی زمین تیار کرنےاور کٹائی کرنے والی  لیبر کی تنخواہیں، ٹریکٹر کا کرایہ ، پٹرول، بیج، کھاد، اسپرے، تھریشر، بجلی ، ٹیوب ویل  اور دیگر تمام اخراجات مزارِع ہی برداشت کرے گا۔ حاصل شدہ فصل کو  فیصد کے اعتبار سے طے کریں گے، مثلاً:70 فیصد مزارِع  اور 30 فیصد مالکِ زمین کو حاصل ہو گا۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اگر درست نہیں، تو جائز شرعی طریقہ بتا دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مزارعت کی بقیہ شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے دو افراد کا اِس انداز میں عقدِ مزارعت کرنا کہ  ایک فرد صرف زمین دے گا اور دوسرا شخص یعنی مزارِع  سارے  کام کرے گا اور جو اُن کاموں پر اخراجات آئیں گے، وہ بھی  تنہا مزارِع اٹھائے گا۔ یہ عقد شرعاً درست ہے، اِس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔

    اِس حکم شرعی کی تفصیل یہ ہے کہ قولِ ظاہر الروایہ کے مطابق کھاد، اسپرے ، کٹائی  اور گہائی(Threshing) کے اخراجات طے شدہ نفع  کے تناسب سے لازم آتے ہیں، یعنی جس کا جتنے فیصد نفع ہو گا، مذکورہ اشیاء کے اخراجات میں بھی اُسی تناسب سے حصہ شامل کیا جائے گا، لیکن امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک روایت کے مطابق اگر عاقِدین باہم طے کر لیں کہ ایک فرد صرف زمین دے گا اور باقی سب کام اور اُن کے اخراجات مزارِع برداشت کرے گا، تو یوں عقد کرنا درست ہے۔ کثیر فقہائے احناف نے مزارِعین کے تعامل کے سبب اِسی قول پر فتویٰ دیا ہے اور اِسی کو فقہی معیار کے مطابق  اَصَحّ“ قرار دیا ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت بعینہ اِسی صورتِ تعامل پر مشتمل ہے، لہذا یہ طریقہ بھی شرعاً درست ہے۔

   تنویر الابصار والدرالمختار“ میں ہے:’’(وصح اشتراط العمل) كحصاد ودياس ونسف على العامل (عند الثاني للتعامل وهو الأصح) وعليه الفتوى ملتقى‘‘ ترجمہ:امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک تمام کاموں مثلاً: کٹائی، دانوں کو بھوسے سے الگ کرنے اور چھاننے کے   عمل یا اخراجات کو  تعاملِ  کے سبب مزارِع پر لازم قرار دینا بھی صحیح اور درست ہے۔ یہی قول اصح ہے۔ اِسی پر فتویٰ ہے۔(تنویر الابصار و الدرالمختار ، جلد 21،کتاب المزارعہ،  صفحہ 115 ، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   اِس کے تحت علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا کہ اگر دونوں نے مفاہمت سے مزارِع پر یہ تمام اخراجات لازم نہ کیے، تو حسبِ ظاہر الروایہ یہ اخراجات دونوں پر ہی لازم آئیں گے، چنانچہ لکھا:’’ قال في الخانية: لكن إن لم يشترط يكون عليهما۔۔۔وإذا شرط عليه لزمه للعرف‘‘ ترجمہ:”الفتاوی الخانیۃ“ میں فرمایا: لیکن اگر دونوں نے مشروط نہ کیا، تو یہ اخراجات حسبِ ظاہر الروایہ دونوں پر لازم ہوں گے، البتہ جب مزارِع پر لازم کر دیے، تو پھر عرف کے سبب اُسی پر لازم ہوں گے۔(رد المحتار مع درالمختار ، جلد 21،کتاب المزارعۃ،  صفحہ 115 ، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   فتاوٰی عالمگیری میں ہے:’’عن أبي يوسف رحمه اللہ تعالى أنه أجاز ‌شرط ‌الحصاد والرفع إلى البيدر والدياس والتذرية على المزارع لتعامل الناس وبعض مشائخنا ممن وراء النهر يفتون به أيضاً وهو اختيار نصير بن يحيى ومحمد بن سلمة من مشائخ خراسان كذا في البدائع‘‘ ترجمہ:حضرت امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ اُنہوں نے مزارِعین کے تعامل کے سبب کٹائی، تھریشر تک لیجانے اور دانوں کی صفائی وغیرہا ، تمام کاموں کو مزارِع  پر لازم قرار دینے کو ”جائز“ ارشاد فرمایا۔ ہمارے ماوراء النہر کے بعض مشائخ نے بھی اِسی پر فتوٰی دیا۔ یہی قول خراسان کے مشائخ مثلاً: نصیر بن یحییٰ اور محمد بن سلمیٰ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْهما کا اختیار کردہ ہے، جیسا کہ ”بدائع الصنائع“ میں ہے۔(الفتاوى الھندیہ، جلد01، صفحہ50،مطبوعہ کوئٹہ)

   ہمارے برصغیر کا عُرف بھی یہی ہے، چنانچہ امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340 ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’إن هاهنا البذر والبقر والعمل كلها من المزارع دون رب الأرض‘‘ ترجمہ:ہمارے یہاں برصغیر میں بھی بیج، بیل اور تمام کام مزارِع کی طرف سے ہوتے ہیں، مالکِ زمین کی طرف سے نہیں۔(جد الممتار، جلد06، صفحہ417، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم