Dehari Par Kaam Karna Aur Ghantay Muayyan Na Karna?

دِہاڑی پر کام کرنا اور گھنٹے معین نہ کرنا ؟

مجیب: مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6395

تاریخ اجراء:21ربیع الثانی1441ھ19دسمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ منڈی میں صبح چار بجے سے لے کر گیارہ بجے تک کام ہوتا ہے۔زید نے نے اپنے مال کی بابت عمروسے کہا  کہ میں تمہیں دیہاڑی پانچ سو روپے دوں گا،آپ میرا یہ مال بیچ دو۔ اب وہ مال بکے یانہ بکے یہ نفع و نقصان مالک(زید)  کا ہی ہو گا،الغرض زید  نے یہ نہیں کہا کہ چار سے دس یا چار سے گیارہ بجے تک مال بیچنا ہے،بلکہ صرف یہ کہا کہ تمہیں دیہاڑی پانچ سو روپے دوں گا اور آپ نے میرا یہ مال بیچنا ہے اور دیہاڑی کے بارے میں معروف یہی ہے کہ منڈی کا ٹائم چار بجے سے لے کر دس، گیارہ بجے تک ہوتا ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ اس اجارے میں گھنٹے وغیرہ متعین نہیں کیے کہ کب سے کب تک کا اجارہ ہے، تو اس طرح گھنٹے مقرر کیے بغیر اجارہ کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں زید اور عمر و کا مذکورہ طریقہ کار کے مطابق عقدِ اجارہ کرنا شرعاً جائز ہے۔ فقط گھنٹوں کو بیان نہ کرنے کی وجہ سے اجارے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔تفصیل اس مسئلہ کی یوں ہے کہ زید اور عمرو کے درمیان طے پانے والا اجارہ وقت کا ہے،کیونکہ عقدِ اجارہ میں اگر وقت اور کام میں سے کسی ایک کو پہلے ذکر کر کے اس کے ساتھ اجرت بیان کر دی جائے،تو اجارہ اسی پرمنعقد ہوتا ہے۔اب پوچھی گئی صورت میں بھی چونکہ زید نے اولاً وقت(دیہاڑی )کو ذکرکرکےاس کے ساتھ اجرت (پانچ سو) بیان کر دی ہے،لہٰذا یہ اجارہ بھی وقت کا ہو ا۔نیز سوال میں بیان کی گئی وضاحت’’مال بکے یا نہ بکے یہ نفع و نقصان زید کا ہی ہو گا‘‘بھی اس بات پہ واضح دلیل ہے کہ یہ اجارہ وقت کا  ہے،کیونکہ کام کے اجارے میں کام کرنا ضروری ہوتا ہے،فقط ٹائم دینے سے اجیر اجرت کا مستحق نہیں ہوتا۔

    پھر وقت کے اجارے میں دیگر شرائط کے ساتھ وقتِ اجارہ کی تفصیل (یعنی ملازم کب سے کب تک کام کرے گا)بیان کرنابھی ضروری ہوتاہے،تاکہ بعدمیں اجیر(ملازم) اورمستاجِر(ملازم رکھنے والا) کے درمیان کسی قسم کا جھگڑا واقع نہ ہو،کیونکہ اجارے وغیرہ میں باعثِ نزاع (جھگڑا) جہالت عقد کوہی  فاسد کر دیتی ہے ، البتہ اگر عقد میں تو وقتِ اجارہ  کی تفصیل  بیان نہ کی،لیکن وہاں عرف میں اجیروں کے کام کرنے کا وقت مقرر ہو،توعقد میں صراحتا وقت کی تفصیل بیان نہ کرنے کے باوجودبھی عقدِ اجارہ درست ہوتا ہے اور اجیر پر اسی عرف کے مطابق کام کرنا لازم ہوتا ہے، کیونکہ عرف میں جو چیز متعین ہو،تو گویا وہ ایسے ہی ہے،جیسے عقد میں اسےصراحتاً بیان کر دیا گیا ہو۔اب پوچھی گئی صورت میں بھی چونکہ اس منڈی میں کام کرنے کا عرف صبح چار بجے سے لے کر  گیارہ بجے تک مقررہے،لہذا  گھنٹوں کو بیان نہ کرنے کے باوجود عقدِ اجارہ درست ہو گااور اجیر پر اسی عرف کے مطابق  کام کرنا ضروری ہوگا۔

    وقت اور کام میں سے کسی ایک کو پہلے ذکر کر کےاس کے ساتھ اجرت بیان کر دی جائے،تو اجارہ اسی پر منعقد ہوتا ہے۔چنانچہ محیط برہانی میں ہے:’’الفتوى على قول ابي حنيفة على الفساد سواء ابتدا بذكر المدة او بذكر العمل اذا لم يتم العقد على المذكور اولاًبان لم يذكر الاجر معه، فاما اذا تم العقد على المذكور اولاً بان ذكر الاجر معه، ثم ذكر الثاني لا يفسد العقد عند ابي حنيفة سواء ابتدابذكر العمل او بذكر المدة، وصورة ذلك اذا قال للخباز: استاجرتك اليوم بدرهم على ان تخبز لي كذا،او قال: استاجرتك على ان تخبز لي كذا بدرهم اليوم، فهذه الاجارة جائزة عند ابي حنيفة في الوجهين جميعاً، ولو قال: استاجرتك اليوم على ان تخبز لي كذا بدرهم،او قال: استاجرتك على ان تخبز اليوم كذا بدرهم فهذه الاجارة عند ابي حنيفة لا تجوز في الوجهين جميعاً، وهذا لانه اذا لم يذكر الاجر مع الاول وانما ذكر الاجر بعد ذكرهما فقد قابل الاجرتين كل واحد منهما يصلح معقوداً عليه وليس احدهما باولى من الآخر، فكان المعقود عليه مجهولاً يفسد العقد عنده، واما اذا ذكر الاجر مع الاول، فقد تم العقد وتعين الاول مراداً من العقد بتمام العقد فالثاني لا يصلح من اجماله، ويكون ذكر الثاني اما لتعيين العمل او للتعجيل فلا يفسد العقد عنده“ترجمہ:(اگر عقدِ اجارہ میں وقت اور کام دونوں کو جمع کیا جائے،تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اجارہ فاسد ہے اور) اجارہ فاسد ہونے میں فتوی امام اعظم علیہ الرحمۃ کے قول پر ہے اوراس میں کوئی فرق نہیں کہ وقت کا ذکر پہلے  ہو یا کام کا( بہر صورت اجارہ فاسد ہے اور اجارہ اس وقت فاسد ہو گا) جبکہ وقت اور کام  دونوں میں سے جسے بھی پہلے ذکر کیاجائے،اس پر عقد تام نہ ہوا ہو ، بایں طور کہ اس کے ساتھ اجرت کو ذکر نہ کیا جائے ۔بہر حال جب ان دونوں میں سے جسے پہلے ذکر کیا گیا، اس پر عقد تام ہو گیابایں طور کہ اس کے ساتھ اجرت کو بھی ذکر کر دیا، پھر اس کے بعد دوسرے کو ذکر کیا، تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک عقدِ اجارہ  فاسد نہیں ہو گا۔اب اس میں کوئی فرق نہیں کہ پہلے وقت کو ذکر کیا ہو یا کام کو (بہر صورت عقد درست ہو گا) ۔اس کی صورت  یہ ہے کہ جب  کسی نے نانبائی سے یوں کہا: میں نے تمہیں آج کے دن ایک درہم کے بدلے میں ملازم  رکھا اس طور پر کہ تو میرے لئے اتنی روٹیاں لگادےیا پھر اس طرح  کہا: میں نے تمہیں اتنی روٹیاں لگانے پرایک درہم کے بدلے میں  آج نوکر  رکھا۔پس  امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دونوں صورتوں میں یہ اجارہ جائز ہے اور اگر یوں کہا کہ میں نے تمہیں آج کے دن کے لئے اجیر رکھا کہ تو مجھے اتنی روٹیاں لگا دے ایک درہم کے بدلے میں ،یا یوں کہا :میں نے تمہیں اتنی روٹیاں لگانے پر آج کے دن کےلئے ایک درہم کے بدلے میں اجیر رکھا،تو ان دونوں صورتوں میں اجارہ فاسد ہے، کیونکہ اس نے پہلے کے ساتھ اجرت کا ذکر نہیں کیا،بلکہ وقت اور کام دونوں کو ذکر کرنے کے بعد اجرت کو ذکر کیا، گویا دونوں میں سے ہر ایک کے بدلے میں ایک ہی اجرت کو ذکر کیا اور یہ دونوں معقود علیہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان دونوں میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی کوئی وجہ نہیں، لہذا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک معقود علیہ مجہول ہونے کی وجہ سے اجارہ فاسد ہو جائےگا۔ بہر حال (پہلی دو صورتوں میں اجارہ درست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ  ) جب اس نے پہلے ایک کو ذکر کرنے کے ساتھ اجرت بھی بیان کر دی،تو عقد تام ہو گیا اور وہی معقود علیہ بھی متعین ہو گیا۔پس دوسرے کاذکر یا تو کام کی تعیین کے لئے ہو گا (یعنی کام کا تذکرہ اس لئے ہو گاکہ اجارہ اس کام پر ہوا ہے)یا پھر اس سے کام کی تعجیل مقصود ہو گی (یعنی دن کا تذکرہ اس لئے ہو گا تا کہ اجیر جلدی جلدی کام کرے ۔ )                                                                                                

(محیط برھانی ،کتاب الاجارات،الفصل السادس،ج9،ص124،مطبوعہ، کوئٹہ)

    عقد اجارہ میں معروف و متعین چیز کو ذکر نہ کیاجائے،تب بھی اجارہ درست ہوتا ۔چنانچہ محیط برہانی میں ہے:’’والمعروف فيما بين الناس كالمشروط  وبهذا جازت الاجارة‘‘ترجمہ:اور لوگوں کے مابین کسی چیز کا معروف ہونا ایسے ہی ہے،جیسے اسے شرط قرار دیا گیا ہواوراسی عرف کے سبب اجارہ جائز ہو جاتا ہے۔

(محیطِ برھانی،کتاب المکاتب،الفصل الثالث،ج4،ص297،مطبوعہ کوئٹہ)

    اوراجیر پر عرف کے مطابق کام کرنا لازم ہوتا ہے۔چنانچہ فتاوی قاضی خان اور فتاوی ہندیہ میں ہے:واللفظ للھندیۃ:’’رجل استاجر اجيرا يوما، ليعمل له كذا قالوا:ان كان العرف بينهم انهم يعملون من طلوع الشمس الى العصر فهو على ذلك وان كان العرف انهم يعملون من طلوع الشمس الى غروب الشمس فهو على ذلك وان كان العرف مشتركا فهو على طلوع الشمس الى غروبها اعتبارا لذكر اليوم‘‘ترجمہ:ایک شخص نے ایک دن کے لئے مزدور رکھا، تاکہ وہ مستاجِر(اجیر رکھنے والے ) کا کام کرے،فقہاء نے فرمایا:اگر مزدوروں کا عرف  یہ ہو کہ وہ طلوعِ آفتاب  سے لے کر عصر تک کام کرتے ہیں،تواجارہ اسی پر منعقد ہو گا اور اگر عرف یہ ہو کہ وہ طلوعِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب  تک کام کرتے ہیں،تو اسی پر  اجارہ منعقد ہو گااور اگر عرف مشترک ہو،تو لفظِ’’یوم‘‘کا اعتبار کرتے ہوئےطلوع آفتاب  سے لے کر غروب ِ آفتاب تک اجارہ ہو گا۔

(فتاوی ھندیہ،کتاب الاجارہ،الباب الثالث فی الاوقات، ج4،ص468،مطبوعہ کراچی)

    اسی بارے میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ایک دن کے ليے مزدور رکھا،تو کس وقت سے کس وقت تک کام کرے گا؟ اس کے متعلق وہاں کا عرف دیکھاجائے گا، اگر عرف یہ ہے کہ طلوع آفتاب سے غروب تک کام کرے، تو اس کوبھی کرنا ہوگا اور اگر عرف یہ ہے کہ طلوعِ آفتاب سے عصر تک کام کرے،تویہ لیا جائے گااور اگر دونوں قسم کا رواج ہے، تو غروب تک کام کرنا ہوگا، کیونکہ اجارہ میں دن کہا ہے اور دن غروب پر ختم ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اس کے متعلق مختلف قسم کے عرف ہیں۔معماروں (تعمیراتی کام کرنے والوں)کے متعلق یہ عرف ہے کہ انہیں بارہ بجے سے دوبجے تک دوگھنٹے کی کھانے کے ليے اور کچھ تھوڑی دیر آرام کرنے کے ليے چھٹی دی جاتی ہے اور اسی وقت میں جو ان میں نمازی ہوتے ہیں، نماز بھی پڑھ لیتے ہیں اور شام کو غروب آفتاب پر یااس سے کچھ قبل کام ختم کیا جاتا ہے اور صبح کو گھنٹا پون گھنٹا دن نکلنے کے بعد کام شروع ہوتا ہے۔ بالجملہ مزدوروں کے کام کے اوقات وہی ہوں گے، جووہاں کا عرف ہے۔‘‘

(بہارِ شریعت،ج4،ص143،مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ)

    اس مسئلے کی نظائر اجارے کے دیگر وہ مسائل بھی ہیں ،جن میں نفسِ عقد میں تو باعث نزاع جہالت موجود ہے،لیکن اس کے باوجود عرف کی وجہ سے ان کے جواز پر فتوی ہے۔مثلاً کسی شخص نے دوسرے کو ایک مہینہ خدمت کے لئے ملاز م رکھااور خدمت کی تفصیل بیان نہ کی،تو اگرچہ یہاں عقد میں جہالت موجود ہے،اس کے باوجود عرف کی وجہ سے یہ اجارہ درست اور اجیر پر عرف کے مطابق خدمت کرنا واجب ہے۔یونہی زمین کرائے پہ لی اور یہ بیان نہیں کیا کہ اس میں کھیتی اگائے یا کچھ اور ،نیز اگر کھیتی اگائے گا،تو کون سی۔اس عقد میں بھی باعثِ نزاع جہالت موجود ہے،لیکن جہاں اس طرح تفصیل بیان کرنے کا عرف نہ اور مستاجر کو ہر طرح کی کھیتی اگانے کا اختیار ہو،تو وہاں نفسِ عقد میں جہالت کے باوجودیہ اجارہ درست ہے۔اور اس کے علاوہ اور بہت سے مسائل جو کتبِ فقہ  و فتاوی وغیرہ میں موجود ہیں۔

     خدمت والے مسئلے کی  علت محیطِ برہانی میں یوں بیان کی گئی ہے:’’ان اعمال الخدمة معلومة فيما بين الناس عرفاً والمعروف فيما بين الناس كالمشروط  وبهذا جازت الاجارة وان لم يبين نوع الخدمة وينصرف مطلق اسم الخدمة الى ما يعتاد خدمة فيما بين الناس في البيت وخارج البيت‘‘ترجمہ:بیشک خدمت کے کام جو لوگوں میں رائج ہیں،وہ معلوم ہیں اور لوگوں کے مابین کسی چیز کا معروف ہونا ایسے ہی ہے،جیسے اسے شرط قرار دیا گیا ہو۔اسی کے سبب اجارہ جائز ہو جائے گا،اگرچہ خدمت کی تفصیل نہ بیان کی ہواور مطلق خدمت کو لوگوں کے مابین گھر میں یا گھر سے باہر لی جانے والی معروف خدمت کی طرف پھیرا جائے گا۔

(محیطِ برھانی،کتاب المکاتب،الفصل الثالث،ج4،ص297،مطبوعہ کوئٹہ)

    تنویر الابصارمع در مختار میں ہے:’’استاجر ارضا ولم يذكر انه يزرعها او ای شيء يزرعها) فسدت الا ان يعمم ‘‘ترجمہ:زمین کرائے پر لی اور یہ بیان نہیں کیا کہ اس میں کھیتی اگائے گا یا کون سی کھیتی اگائے گا،تواجارہ فاسد ہو جائے،مگر جب  اس میں عموم بیان کر دے۔

(تنویر الابصار مع در مختار،کتاب الاجارہ،ج9،ص102،مطبوعہ پشاور)

    اس کے تحت جد االممتار میں ہے:’’اقول:وجه الفساد كما اشار اليه الشارح فيما سلف وبينه المحشي:هو الجهالة المفضية الى المنازعة في عقد المعاوضة،فان من الزرع ما ينفع الارض ومنه ما يضرها)،فحيث كان العرف عدم النزاع والاتفاق على ان للمستاجر ان يزرع ما شاء كما في بلادنا، فانهم ربما لا يذكرون ما يزرع ولا يعممون وانما يرسلون ارسالا، ثم لا يقع التنازع في ذلك قط  ويعتقدون جميعا ان الزراع بالخيار، فالذی يظهر للعبد الضعيف: انه لا حاجة الى بيان ولا تعميم حيث الحال هكذا  ويصح العقد ابتداء، لان المعروف كالمشروط، فالاطلاق كالتعميم‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں کہ فساد کی وجہ جس کی طرف پہلے شارح نے اشارہ کیا ہے اور اسے محشی نے بھی بیان کیا ہے،وہ ایسی جہالت ہے، جو عقدِ معاوضہ میں جھگڑے کی طرف لے جائے ،کیونکہ بعض کھیتیاں زمین کےلئے مفید ہوتی ہیں اور بعض نقصان دہ۔پس جہاں جھگڑا نہ ہونے کا عرف ہو اور عقدِ اجارہ کرنے والے اس بات پہ متفق ہوں کہ زمین کرائے پہ لینے والاجو کھیتی چاہے ،اگائے جیسا کہ ہمارے بلاد میں ہے کہ بسا اوقات وہ کھیتی کی تفصیل بیان نہیں کرتے ، نہ ہی تعمیم بیان کرتے ہیں بلکہ  ویسے ہی زمین دے دیتے ہیں، اس کے باوجود کبھی جھگڑا واقع نہیں ہوتا اور وہ دونوں متفق ہوتے ہیں کہ مستاجرکو اختیار ہو گا(جو کھیتی چاہے، اگائے)تو اس بندہ ضعیف پر یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ اجارے میں کھیتی کی تفصیل اور اس طرح عموم بیان کرنے کی حاجت نہیں  اور ابتداءً عقد درست ہو گا،کیونکہ معروف چیز مشروط کی طرح ہوتی ہے۔

(جد الممتار،ج6،ص286،مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ)                                                                                                                                                                                                                                                                

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم