Car Rent Par Dena Kaisa Hai ?

کار رینٹ پر دینا کیسا؟

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2489

تاریخ اجراء: 03شعبان المعظم1445 ھ/14فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا اپنی کار رینٹ پر دے سکتے ہیں ؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کار یا کسی اور گاڑی کو کرائے پر دینا جائز ہے  جبکہ شرعی طریقہ کار کے مطابق کرائے پر دیا جائے ،مثلا:

٭کرایہ  شروع ہی میں طے کر لیا جائے ۔٭اور کتنے وقت کیلئے کرائے پر دینا ہے ،وہ وقت  بھی متعین کردیا  جائے۔

٭اور اس   کرایہ داری کے معاملے میں کسی قسم کی خلاف شرع  شرط نہ لگائی جائے مثلاً گاڑی کے مالک کا یہ شرط رکھنا کہ اگر کرائے کی مدت   کے دوران اس گاڑی میں کسی قسم کی خرابی یا حادثے کیوجہ سے کوئی  نقصان ہوگیا تو اس   کا  تاوان بہر صورت کرایہ دار پر لازم ہوگا  یہ ایسی شرط ہے جو اس عقد کو فاسد کردے گی ۔

   غرضیکہ شرعی طریقہ کار کے مطابق رینٹ پر گاڑیوں کا لین دین کرنا، درست ہے ۔

   چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے :”چوپایہ ، اونٹ ،گھوڑا ،گدھا ،خچر بیل ،بھینسا وغیرہ ان جانوروں   کو کرایہ پر لے سکتے ہیں خواہ سواری کیلئے کرایہ پر لیں یا بوجھ لادنے کیلئے ۔“(بہارِ شریعت،جلد03،صفحہ 128، مکتبۃ المدینہ،کراچی )

   اسی بہار شریعت میں ہے :”اجارہ کے شرائط یہ ہیں : اجرت     کا معلوم ہونا ۔۔منفعت  کا معلوم ہونا ۔۔جانور کرائے پر لیا  تو اس میں وقت بیان کرنا مثلاً گھنٹہ بھر سواری کیلئے لے گا ۔۔اور اجارہ میں ایسی شرط نہ ہو جو مقتضائے عقد کے خلاف ہو ۔(بہارِ شریعت،جلد03،صفحہ 108،ملخصا ، مکتبۃ المدینہ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم