مجیب:مولانا محمد
نوید چشتی عطاری
فتوی نمبر:WAT-2935
تاریخ اجراء: 29محرم الحرام1446 ھ/05اگست2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت
اسلامی)
سوال
کال سینٹر کی جاب کرنا جائز ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فی نفسہ(اپنی ذات کی حدتک) کسی کال سینٹر پر کسی
ادارے کی تشہیر یا اس کی معلومات فراہم کرنے کے لیے
جاب کرنے میں حرج نہیں، جبکہ جائز کام کی تشہیر ہو اور اس
میں کوئی ناجائز و خلافِ شرع کام نہ کرنا پڑے۔
چنانچہ جائز کام کی اجرت کے متعلق فتاوی
رضویہ میں ہے”بہرحال نفسِ اجرت کہ کسی فعلِ حرام کے مقابل نہ ہو
، حرام نہیں ، یہی معنی ہیں اس قولِ حنفیہ کے
کہ:"یطیب
الاجر وان کان السبب حراما کما فی الاشباہ وغیرھا" یعنی
اجرت طیب ہوگی، اگرچہ سبب حرام ہے ، جیسا کہ الاشباہ وغیرہ
میں ہے۔( فتاوی رضویہ، ج 19، ص 501، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
لیکن اگر ناجائز کام کی تشہیر کرنی ہو یا ناجائز کام کے بارے میں
رہنمائی و ذہن سازی کرنی
ہو یا جھوٹ بولنا پڑے یا اس میں دھوکہ شامل ہو یا اس جیسا
کوئی اور ناجائز کام کرنا پڑے، تو کال
سینٹر پر ایسی جاب کرنا، ناجائز و حرام ہے۔
گناہ کے کام پر مدد کرنا گناہ ہے،اللہ تعالیٰ
قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے﴿وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ
دو ۔ (پارہ 6،سورۃ المائدۃ،آیت
02)
اس آیت مبارکہ کے تحت احکام القرآن
للجصاص میں ہے ” نھی عن معاونۃ غیرنا علیٰ معاصی
اللہ تعالی“ ترجمہ:اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ
کی نافرمانیوں پر کسی کی مدد کرنے سے منع کیا گیا
ہے۔(احکام القرآن ،ج 02،ص 381، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
محیط برہانی میں ہے"الاعانۃ علی المعاصی
و الفجور و الحث علیھا من جملۃ الکبائر"ترجمہ: گناہوں اور فسق و فجور کے
کاموں پر مدد کرنا اور ان پر ابھارنا کبیرہ
گناہوں میں سے ہے۔(المحیط البرھانی ،ج 08،ص 312،دار الكتب العلميۃ،بيروت)
ناجائز کام پر اجارہ بھی ناجائز ہے،چنانچہ
مبسوط سرخسی میں ہے"و لا تجوز الاجارۃ علی شيء من الغناء و النوح و
المزامیر و الطبل و شیئ من اللھو لأنہ معصیۃ و الاستئجار علی
المعاصی باطل ،فان بعقد الاجارۃ یستحق تسلیم المعقود علیہ شرعاً
و لا یجوز أن یستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا "ترجمہ: اور گانے باجے، نوحہ،مزامیر،طبل
بجانے اور کسی بھی قسم کے لہو ولعب کے کام پر اجارہ جائز نہیں، کیونکہ
یہ گناہ ہے اور گناہوں پر اجارہ کرنا باطل ہے ،کیونکہ عقد اجارہ کے سبب
معقود علیہ (جس چیز پر اجارہ کیاگیا ہے )کو سپردکرنے کا شرعاً
استحقاق ثابت ہوجاتا ہے اور یہ جائز نہیں کہ کسی شخص پر ایسے
فعل کا استحقاق ثابت ہو جس سے وہ شرعاً گنہگار ہوجائے۔(المبسوط للسرخسی،کتاب الاجارات،ج
16،ص 38،دار العرفۃ،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
نر جانورسے جفتی کروانے کی اجرت لینے کاحکم
درزی کے پاس بچے ہوئے کپڑے کا حکم ؟
جو ریپرینگ کے لئےسامان دے جاتے ہیں مگرواپس لینے نہیں آتےان کا کیا کریں؟
کیا کسی چیزکے فروخت کرنے پر اجارہ کرنا درست ہے؟
ایسے چینل پرنوکری کرنا کیسا جہاں جائز و ناجائز پروگرامز آتے ہوں؟
دورانِ ڈيوٹی جو وقت نماز ميں صرف ہوتا ہے اس کی تنخواہ لينا کیسا؟
دوران اجارہ نماز میں صرف ہونے والے وقت کا اجارہ لینا کیسا؟
امام مسجد کا حج کی چھٹیوں پر کسی کو نائب بنانے اور ان دنوں کی تنخواہ لینے کا حکم