Brokerage Aur Is Ke Zaroori Ahkam

بروکری اور  اس کےضروری احکام

مرکز الاقتصا د الاسلامی دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

Islamic Economics Centre Darulifta Ahlesunnat (Dawat e islami)

از قلم: مولانا ذیشان اکبر عطاری مدنی

بروکری (Brokerage)

   جیسے جیسے دنیا کا نظام بدلتا جارہا ہے لوگوں کے تجارت کے انداز میں بھی تبدیلی واقع ہو تی جارہی ہے ہر آنے والے دن کے ساتھ  تجارت کی نت نئی صورتیں سامنے آرہی ہیں علمائے اسلام  ان نئے پیش آمدہ مسائل سے  متعلق حکمِ شرعی سے مسلمانوں کو آگاہ کر رہے ہیں تاکہ مسلمان  اپنی تجارت کو دائرہ حلال تک محدود رکھیں اور حرام سے بچیں۔تجارت سے متعلقہ ایک پیشہ بروکری بھی ہے جو کہ قدیم زمانے سے رائج ہے لیکن فی زمانہ اس میں بہت جدت واقع ہوچکی ہے یہاں تک کہ یہ کاروبار کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اگر  تجارتی معاہدوں  سے بروکر کونکال دیا جائے تو  کاروبار بلندی سے پستی پر آجائے ۔ہر بڑی تجارتی مارکیٹ میں بروکرز کا عمل دخل ہے ۔دیگر امور زندگی کی طرح اس شعبہ میں بھی حلال و حرام کے احکام موجود ہیں اور درست طریقہ اختیار کرنا اور غلط طریقہ چھوڑنا سب مسلمانوں پر لازم ہے ۔

فقہی اعتبارسے بروکر

   خریدار (Buyer)اور بیچنے والے (Seller)کے درمیان سودا  (Deal)کروانےوالے کو  بروکر کہا جاتا ہےعرف عام میں اسے (Middle Man)،کمیشن ایجنٹ (Commission Agent)، آڑھتی اوردلال بھی کہاجاتا ہے۔

زمانۂ رسالت اور بروکری کا پیشہ

   نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانۂ اطہر میں  کمیشن پر کام کیا جاتا تھااور  اس کام کے کرنے والوں کو ” سماسرۃ “کہا جاتاتھا بلکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانۂ اطہر سے پہلےبھی کمیشن  کے کام کو لوگوں نے بطور پیشہ اپنایا ہوا تھا ۔

   حضرت قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : ”كُنَّا نُسَمَّى فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّمَاسِرَةَ، فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ الْحَلِفُ وَاللَّغْوُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ۔“ یعنی:ہمیں زمانۂ رسالت  صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم میں سودا گر کہا جاتا تھاہم پر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم گزرے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم نے ہمیں اس سے بہتر نام سے پکارا اور فرمایا: اے تاجروں کے گروہ !تجارت میں فضول باتیں اور جھوٹی قسمیں آجاتی ہیں لہذا اسے خیرات سے مخلوط کردو۔(سنن ابی داؤد،جلد02،صفحہ116،مطبوعہ ملتان)

حدیث پاک کی مختصر شرح

   سمسار دلال کو کہتے ہیں جو تاجر اور خریدار کے درمیان سودا کراتا ہے۔۔۔ سمسار سے تاجر نام بہتر ہے کیونکہ قرآن شریف میں اس مشغلہ کو تجارت فرمایا گیا ہے۔۔۔ تجارت میں کتنی ہی احتیاط کی جائے مگر پھر بھی کچھ لغو کچھ جھوٹ جھوٹی قسم منہ سے نکل ہی جاتی ہے اس لیے صدقہ و خیرات ضرور کرتے رہو کہ صدقے سے غضب الٰہی کی آگ بجھ جاتی ہے۔(مراٰۃ المناجیح،جلد04،صفحہ278،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ ،گجرات،ملتقطاً)

کمیشن ایجنٹ کی شرعی حیثیت

   شرعی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے بروکری کی فیلڈ اختیار کرنا جائز ہے اوراس  ذریعے سے روزی کمانا بھی حلال ہے اور یہ طریقۂ آمدنی صدیوں سے رائج ہے اور کسی دور میں بھی علمائے کرام نے اسے حرام نہیں کہابلکہ صحیح البخاری میں بروکر کی اجرت سےمتعلق پورا ایک  باب باندھا گیاہے جس میں کبار تابعین جیسا کہ حضرت امام ابن سیرین، حضرت عطاء ،حضرت ابراہیم اورحضرت  حسن  رحمۃاللہ تعالی  علیھم بروکر  کی اجرت میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے۔ (صحیح البخاری ،جلد01،صفحہ 303،مطبوعہ کراچی)

ناجائز کام کی بروکری

   کسی بھی ایسے سودے میں ایجنٹ بننا جائز نہیں ہے جو حرام پروڈکٹ یا ناجائز امور پر مشتمل ہوجیسے شراب ، جوا ، موسیقی کے آلات وغیرہ کے سودے کروانے میں ایجنٹ بننا ۔لہٰذا جہاں بھی ایجنٹ کو پتہ چل جائے کہ  جو  سودا (Deal) وہ کروا رہاہےاس میں حرام کی آمیزش ہے یا وہ سودا (Deal)ناجائز امور پر مشتمل ہےتو ایسے کام میں کسی بھی طرح کی معاونت وسہولت کاری انجام نہ دے۔

   اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام قرآن میں فرماتا ہے:وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۪-وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۪“ترجمۂ کنز الایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(القرآن،پارہ06،سورۃ المائدہ ،آیت نمبر02)

کمیشن کی ادائیگی کس پر لازم ہے؟

   خریدار (Buyer)اور بیچنے والا(Seller) میں سے جس کے لیے بروکر نے  دوڑ دھوپ سے کام لیتے ہوئے کام کیا اس سے کمیشن وصول کرے گاہاں اگر دونوں کے لیے عملی محنت و کوشش کی  ہےاوراس مارکیٹ میں  دونوں سے کمیشن لینا رائج ہے تو دونوں سے کمیشن لے سکتا ہےلیکن  دونوں سے کمیشن لینےکی صورت میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہےکہ خریدار اور بیچنے والے میں سے کسی  کی بھی  جانب سے  بروکر نے سودا نہ کیا ہو اگر بروکر نےکسی کی نمائندگی کرتے ہوئے سودا کیاہے  تو  اس صورت میں صرف اسی  سے کمیشن وصول کرے گا دوسری پارٹی سے کمیشن وصول نہیں کر سکتا ۔(تنقیح الفتاوی،جلد01،صفحہ 259،مطبوعہ پشاور/بہار شریعت،جلد02،صفحہ 239،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

کمیشن طے کرنےکا طریقہ

   بروکر اپنا کمیشن دوطریقوں سے طے کرسکتا ہے:

   متعین رقم کی صورت میں طے کرے کہ یہ سودا کروانے کی اتنی رقم لوں گا  ۔

   فیصد میں طے کرے جبکہ اس کا عرف ہو کہ جتنے کی ڈیل ہوگی اس کا اتنا فیصد لوں گا۔

   لیکن دونوں  صورتوں میں یہ ضروری ہے کہ مارکیٹ میں رائج اجرت سے زیادہ وصول نہیں کرسکتا۔

سودا کینسل (Cancel)ہونے کی صورت میں کمیشن

   خریدار (Buyer)اور بیچنے والے (Seller)کے درمیان بروکر نے اپنے کام کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر سودا کروا دیا  تو یہ اجرت کا مستحق ہو جائے گا ۔ بالفرض یہ   دونوں حضرات سودا کینسل کر دیں تو اب سودا کینسل ہونے سے بروکر کی اجرت پر فر ق نہیں آئے گاوہ لازمی ادا کرنا ہوگی۔

بروکر کے ذریعے سودا مکمل نہ ہوسکا بعد میں ہوگیا

   خریدار (Buyer)اور بیچنے والے (Seller)کے درمیان سودا کروانے میں بروکرنے محنت و مشقت کی لیکن کسی معقول وجہ مثلاً ریٹ پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سےسودا مکمل نہ ہوسکا تواس میں مضایقہ نہیں ہےاور اس صورت میں بروکر کمیشن کا بھی مستحق نہیں ہوگا لیکن جان بوجھ کر بروکر کو مائنس کرنے کے لیے سودا نہ کرنا اور مائنس کرنے کے بعد مالک سے رابطہ کرکے سودا کرلینااخلاقی اور شرعی طور پر درست نہیں ہے۔

پارٹیوں کو آپس میں ملوانے کےبعدبروکری حاصل کرتے رہنا

   جس ڈیل میں بروکر محنت و مشقت ،بھاگ دوڑکرتا ہے اسی ڈیل میں بروکری کا مستحق ہوتا  ہے۔بروکرکا ڈیل کرواکر طے شدہ کمیشن وصول کرلینے کے بعد فریقین سے کوئی تعلق نہ رہا  آئندہ کے لیے دونوں پارٹیاں بااختیار ہیں چاہیں توخود کام کریں چاہیں تو بروکر کے ذریعے کام کریں ہاں اگرایک ڈیل کے بعد مزیدڈیل میں  بروکرکے ذریعے  کام نہ کیا تو بروکر ایک ڈیل کے علاوہ ڈیل میں کمیشن کا مستحق نہیں ہے ۔ بروکر کا ایک مرتبہ فریقین کے درمیان سودا کروا کر یہ سمجھنا کہ میں نے دونو ں پارٹیوں کو ملوایا ہے،لہٰذا اب تاحیات یا لمبے عرصہ تک مجھے گھر بیٹھے ہر مرتبہ ان کے آپس میں خود کرنے والے سودے کے بدلے کمیشن ملنا چاہیے۔ یہ بلا شبہ غیر شرعی معاملہ اور غلط سوچ ہے، نہ تو ایسی صورت میں کمیشن کا تقاضا کرنا درست ہے اورنہ ہی   اس صورت میں کمیشن لینا بروکر کا حق ہے۔کچھ مارکیٹوں میں یہ ناجائز طریقہ رائج ہے کہ بروکر کے ذریعے کروائے جانے والے سودے کے بعد جب بھی وہ دونوں پارٹیاں باہمی رضا مندی سے کوئی سودا کریں تو بروکر اپنا کمیشن مانگتا ہے یہ جائز نہیں۔

بروکر کامالک کی بتائی گئی رقم سے زیادہ پر بیچ کر اضافی رقم خود رکھ لینا/ٹاپ مارنا

   شرعی قوانین کی رو سے بروکر ایک نمائندہ ہوتا ہے خود چیز کامالک  نہیں ہوتا بلکہ دو پارٹیوں کو ملوارہا ہوتا ہےاور پارٹیاں خود سودا کرتی ہیں اور بسا اوقات مالک کی جانب سے بروکرکو بھی  سودا کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔سودا (Deal)اگر مالک (Owner)کی جانب سے بتائی گئی رقم سے زیادہ پیسوں میں ہوتا ہے تو بروکر  پر لازم ہے کہ جو رقم وصول ہوگی وہ  کل رقم مالک (Owner)کو سپرد کرے گا،جتنی رقم  مالک نے کہی تھی اگر چہ اس سے زیادہ کی بیچی ہو۔ اس زائدرقم پر ایجنٹ کا کسی قسم کاکوئی حق نہیں ہے مکمل رقم  مالک کے سپرد کی جائے گی البتہ بروکرکوعرف کے مطابق اس کا کمیشن ملے گا۔

بروکر نہیں لیکن بروکری کے نام پر پیسے رکھنا

   دوست یا رشتہ داریاجان پہچان والے  کوکوئی چیز خریدنے یا بیچنے کا کہاجاتاہے جبکہ یہ افراد بطور کمیشن ایجنٹ کےکام نہیں کرتےتو چیز خریدنے یا بیچنے میں ان کی حیثیت فقط وکیل کی ہے نہ کہ کمیشن ایجنٹ کی،ان کے لیے کمیشن کا تقاضا کرنا درست نہیں ہےاوراصل مالک کے علم میں لائے بغیر ان کا کمیشن کے نام پر رقم رکھ لینا جائز  نہیں ہےکہ یہ سامنے والےکےساتھ دھوکہ دہی ہے جو کہ حرام وگناہ ہے۔ہاں اگر یہ افراد بطور کمیشن ایجنٹ کے کام کرتے ہیں تو ان کے لیے کمیشن کا تقاضا کرنااور کمیشن لینا درست ہےبلکہ کام کرنے سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ہم آپ کا یہ کام اتنی  کمیشن پر کریں گے سوائے اس کہ عرف کی وجہ سے یہ بات فریقین کے درمیان  طے شدہ سمجھی جائے۔

ڈاکٹر کا لیبارٹری والوں سے کمیشن کے نام پر رقم لینا

   ڈاکٹر حضرات کا مریضوں کو لیبارٹری بھیجنے پر لیبارٹری والوں سے کمیشن لینا درست نہیں ہےوجہ اس کی یہ ہےکہ کوئی بھی شخص کمیشن کا اس وقت مستحق ہوتا ہےجب وہ کوئی قابل معاوضہ کام کرے جبکہ  ڈاکٹر حضرات لیبارٹری والوں کے لیےکوئی قابل معاوضہ کام نہیں کرتےمریض کو لیبارٹری کا پتہ بتا دینا یا مشورہ دے دینا یہ کوئی قابل معاوضہ کام نہیں ہے اس وجہ سے ڈاکٹر کا لیبارٹری والوں سے کمیشن لینا  درست نہیں ہے،جہاں تک بات مریض کو اس لیبارٹری کے بارے میں رہنمائی کرنے کی ہے تو ڈاکٹر مریض سے مطلوبہ فیس وصول کرتا ہےاور اسی وجہ سے مریض اس بات کامستحق ہےکہ ڈاکٹر اس کے ساتھ امانت داری کا  مظاہرہ کرے اگر ضرورت ہو تو لیبارٹری ٹیسٹ کروائےبلاحاجت صرف اپنی کمائی کے لیے مریض سے ٹیسٹ نہ کروائےبلکہ ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ مریض سے خیر خواہی کرے اللہ تعالی کے نزدیک مسلمان سے خیرخواہی پسندیدہ عبادت ہے اور خیر خواہی کرنے والے کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ اسے  جنت سے نہیں روکا جائے گا۔

ڈیجیٹل سہولیات پر بروکری وصول کرنا

   ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی سہولت فراہم کرنے کے لیےکثیر اخراجات اورماہر ٹیم درکار ہوتی ہےاور اسی ٹیم  کے ذریعے  دو فریق آپس میں مل رہے ہوتے ہیں لہذا ڈیجیٹل پلیٹ فارم  کے ذریعےجو دو پارٹیوں کو آپس میں ملواتے ہیں ان کا اس پر کمیشن لینا جائز ہے جبکہ وہ کام بھی جائز ہو۔

بینک یا مختلف کمپنیوں سے لون دلوانا

   جو بینک یا ادارے لون دیتے ہیں وہ سود پر ہی لون دیتے ہیں اورسودی لون لینا اور دینا حرام و گناہ ہے اسی طرح سودی لون دلوانا بھی گناہ ہے کہ یہ گناہ پر براہ راست مدد کرنا ہے۔

وہ اہم باتیں جن کابروکر/کمیشن ایجنٹ  کومعلوم ہونا ضروری ہے

1.               ایک بروکر اصل میں وکیل(Agent)ہوتا ہے جو ایک اعتبار سے اپنی پارٹی کا نمائندہ بھی ہوتا ہے ۔

2.                بحیثیت وکیل بروکر کو دیانت داری کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں ۔

3.               اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ جتنے میں سودا ہوا ہےاس میں سے کچھ رقم حقائق چھپا کر خود رکھ لی جائے اور مالک کے سامنے غلط بیانی کی جائے۔آج کل اسی طرح کے ایک طریقے کو ٹاپ مارنا کہتے ہیں یہ اصل میں ڈاکہ زنی ہے اور حرام ہےاوراس طرح  جو رقم جھوٹ بول کر خود رکھیں گے مال حرام ہے۔

4.                بروکر اپنے ساتھ کام میں کسی ایک ڈیل میں یا مستقل طور پر کسی پاٹنر کو بھی شامل کر سکتا ہے اور دونوں برابر یا کم زیادہ نفع کی فیصد طے کرسکتے ہیں  اورطے شدہ تناسب سے اپنا حصہ لیں گے ۔

5.               کچھ لوگ  بروکر سے خدمات حاصل کرنے  اور مطلوبہ کام کے لئےاس کے چکر لگوانے کے بعد پارٹی سے خود براہ ِراست ہو جاتے ہیں یہ اخلاقی طور پر کسی بھی طرح درست نہیں اور ایک مسلمان کو بلا وجہ شرعی ضرر پہنچانے کی وجہ سے گناہ کا کام ہے کیوں کہ اس دوران جو محنت و مشقت بروکر نے کی ہے وہ رائیگاں ہونے کے سبب اسے اذیت پہنچے گی۔

6.                بروکر کی خدمات لیتے وقت یہ ضرور طے کریں کہ اسے سودے کے بعد مزید کیا کیا کام کرنے ہوں گے رئیل اسٹیٹ کے کام میں   کاغذات کی منتقلی ،پیمنٹ کا لین دین اور اس کے علاوہ بھی مختلف کام ہوتے ہیں جو  سودا ہونے کے بعد بروکر کو کرنے ہوں گے یا نہیں یہ طے کرنا ضروری ہے ۔

7.                بعض سودوں میں بروکری ایک فریق سے لینے کا عرف ہوتا ہے اور بعض میں دونوں سے لہذا ہر فریق سے پہلے ہی  طے کرےکہ دونوں سے بروکری لی جائے گی یا ایک سےتاکہ بعد میں کسی قسم کا نزاع نہ ہو ۔

8.               بہت سارے بروکر صرف اپنے کمیشن کے لالچ میں دھوکے سے کام لیتے ہیں اور مال کے جھوٹے اوصاف بیان کرتے ہیں ،جعلی سوسائیٹیز میں پلاٹ بکوادیتے ہیں یاگھٹیا مال  کا سودا کرتے وقت عیوب کو واضح نہیں کرتے ایسا کرنا سخت حرام کام ہے بروکر پر لازم ہے کہ سودے کے تعلق سے دیانت کے تمام تر تقاضے پورے کرے۔

9.                ناجائز اور غیر شرعی  کاموں میں کسی طرح کا تعاون کرنا جائز نہیں لہذا ایسے سودے جو غیر شرعی ہیں ان میں بروکر بننا اوران سودوں کو کروانے کے لئے کوشش کرنا جائز نہیں ۔

10.          بہت سارے دکان دار ایسا کرتے ہیں کہ جو چیز ان کے پاس نہیں ہوتی اس چیزکے ملنے کی جگہ کسٹمر کو بتادیتے ہیں اور اس بتادینے پر  مطلوبہ چیز کے مالک سے کمیشن کا تقاضا کرتے ہیں واضح رہے کہ  صرف اتنا بتادینے سے وہ محنت و مشقت نہیں پائی گئی جس کا کرنا ایک بروکر یا کمیشن ایجنٹ کے لئے شرعی طور پر ضروری ہے لہذا صرف اتنے سے عمل پر اجرت طلب نہیں کی جا سکتی ۔

تجارت اور لین دین سے متعلق مسائل سیکھنے کے لئے ہمیں جوائن کریں

    ہر اتوار کوکراچی کے وقت کے مطابق مغرب  کی نماز کے  30 منٹ بعد مدنی چینل پر لائیو پروگرام ”احکام تجارت“ پیش کیا جاتا ہے  جس میں  ماہر امور تجارت مفتی علی اصغر صاحب سوالات کے جوابات  دیتے ہیں آپ اپنے سوالات براہ راست  اس پروگرام میں پوچھ سکتے ہیں ۔

    فنانس پروفیشنلز کے لئے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں  اسلامک فنانس سرٹیفکیٹ کورس کروایا جاتا ہے  ۔ کراچی سے باہر کے لوگ اس کورس میں آن لائن شرکت کرتے ہیں ۔سال میں دو بار یہ کورس ہوتا ہے

islamic.finance@dawateislami.net

    پر آپ اپنی رجسٹریشن کے لئے رابطہ کر سکتے ہیں ۔

    ماہنامہ فیضان مدینہ کے ہر شمارہ میں احکام تجارت پر سوال جواب موجود ہوتے ہیں اس شمارے  کے فتاوی دار الافتاء اہل سنت کی ویب سائٹ پر بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔

www.daruliftaahlesunnat.net

    دعوت اسلامی کے زیر اہتمام بزنس کمیونیٹی  کے لئے مختلف شہروں میں وقتا فوقتا مختلف چیمبر آف کامرس یا دیگر مقامات پر تجارت کے تعلق سے اہم لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    ملک بھر میں دار الافتاء اہل سنت کی 15 شاخیں آپ کے سوالات کے جوابات دینے کے لئے موجود ہیں ان کی لوکیشن اور رابطہ نمبر دار الافتاء اہل سنت کی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔

   اہم لنکس پر ہمیں فالو کریں

www.youtube.com/@MuftiAliAsghar

www.facebook.com/MuftiAliAsghar

www.twitter.com/MuftiAliAsghar

مرکز الاقتصا د الاسلامی دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

Islamic Economics Centre Darulifta Ahlesunnat (Dawat e islami)

   دار الافتاء اہلسنت ملک بھر میں اب تک اپنی 15برانچوں کے ساتھ  آپ کو یہ سہولت فراہم کر رہا ہے کہ آپ فون ،ای میل اور بالمشافہ طریقے سے اپنے دینی مسائل پوچھ سکتے  ہیں ۔لیکن اب خاص تجارت و لین دین سے متعلق دعوت اسلامی کے اس شعبہ یعنی مرکز الاقتصا د الاسلامی دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی) کے ذریعے آپ پہلے سے وقت (Appointment)لے کر اپنے مسائل کے لئے میٹنگ طے کر سکتے ہیں ۔کراچی سے تعلق رکھنے والے افراد بالمشافہ آئیں گے جبکہ کراچی سے باہر والے افراد آن لائن میٹنگ کی سہولت  لے سکتے ہیں ۔

   اپنے تجارتی اور لین دین سے متعلق مسائل جاننے کے لئے

takeappointment@daruliftaahlesunnat.net

    ای میل پر رابطہ کر کے آپ وقت  (Appointment) لے سکتے ہیں۔اس میل آئی ڈی پر سوالات کے  جوابات نہیں دئیے جاتے۔ای میل بھیجتے وقت فون نمبر ،اپنی کمپنی کا نام ضرور لکھیں نیز آپ کو کس دن اور کون سا  وقت چاہیے اس کی نشاندہی  بھی ضرور کریں۔

Admin no:03037862512

Contact timing:11 AM to 4 PM

www.daruliftaahlesunnat.net