Beauty Parlour Ki Kamai Halal Hai Ya Haram ?

بیوٹی پارلر کی کمائی حلال ہے یا حرام ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی  نمبر:77

تاریخ  اجراء: 22شوال المکرم1432ھ21ستمبر2011ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بیوٹی پارلر کا کام کر نا، جائزہے یا نہیں اور اس کی کمائی کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   بیوٹی پارلر زمیں بہت سے خلاف شر ع امور کئے جا تے ہیں،جیسے خوبصورتی لانے کے لیے آئی برو بناناجس میں بھنوؤں کے بالوں کو اکھیڑا جاتا ہے اورعورتوں کے بھنووں کے بالوں کواکھیڑنے یا اکھڑوانے کو حدیث شریف میں باعثِ  لعنت قرار دیا گیا ہے ،مردوں کی طرح عورتوں کے بال چھوٹے چھوٹے کاٹے جاتے ہیں جس سے عورت مرد کے مشابہ معلو م ہوتی ہے اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت والا یہ کام بھی باعثِ لعنت ہے،عورت کا مرد کی تزیین یا مرد کا عورت کی تزیین کرنا وغیرہ، البتہ ان میں بعض کام جائز بھی ہوتے ہیں مثلاً چہرے کے زائد بالوں کی صفائی ،مختلف کریمز اورآئی شیڈزوغیرہ کے ذریعہ میک اپ کرکے چہرے کو خوبصورت بنانا،سیاہ مائل رنگت کو نکھارنا،ہاتھوں پاؤں میں مہندی لگانا،بالوں کو سنوارناوغیرہابھنووں کے بال بہت بدصورت ہوں تو ان کی فقط بدنمائی کو دور کرناوغیر ہ جا ئز میک اپ ۔تو اگر بیوٹی پارلر میں صرف جائز کام کیے جائیں خلاف شر ع امور سے با لکل اجتناب کیا جائے تو بیوٹی پارلر کا کام کر نا ، جائز ہے اوراس کی آمدنی بھی جائز ومباح جبکہ اجارے کی دیگر شرائط یعنی کام کا وقت یا کام معین ہو۔اور اگر خلاف شر ع امور کا بھی ارتکاب کرنا پڑتا ہو تو پھر یہ کام جا ئز نہیں اور ان نا جائز کا موں کی آمدنی بھی نا جائز ہو گی ۔

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے :’’ولو استأجر مشاطۃ لتزین العروس مباح قالوا لا یطیب لھا الاجر الا ان یکون علی وجہ الھدیۃ من غیرِشرط، وقیل ینبغی أن تجوز الاجارۃ اذا کانت مؤقتۃ أو کان العمل معلوماً ولم ینقش التماثیل علی وجہ العروس ویطیب لھا الاجر لان تزیین العروسِ مباح‘‘ترجمہ:۔ اور اگر کسی نے دلہن سجانے والی کو اجارہ پر لیا تو یہ جائز ہے ،بعض فقہاء نے فرمایا کہ اس کی اجرت جائز نہیں مگر یہ کہ کام کے بعد اس کو بطورِ تحفہ کچھ دے دیا جائے جبکہ کسی قسم کی کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو ،اور بعض فقہاء نے فرمایا کہ اس کا وقت اگر معلوم ہے یا کام معلوم ہے تو اس کا اجار ہ جائز اور اجرت پاک ہے کیونکہ دلہن کو سجانا مباح امر ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ دلہن کے چہرے پر کسی قسم کے نقش و نگار یا تصویریں نہ بنائے۔ ‘‘(فتاویٰ عالمگیری جلد 4صفحہ526 مطبوعہ پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم