Bank Ko Apni Jaga Kiraye Par Dena Kaisa?

بینک کو اپنی جگہ کرائے پر دینا کیسا ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0108

تاریخ اجراء:26 ربیع الآخر 1445ھ/11نومبر 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا میں سودی بینک (Conventional Bank) کو اپنی جگہ کرائے پر دے سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بینک کو جگہ کرائے پردیناجائزہے ، مگربہتریہ ہے کہ ایسانہ کیاجائے۔ تاہم اگر بینک کو  جگہ کرائے پردی تووہاں ہونے والے ناجائزکاموں کے ذمہ دارخود بینک والے ہیں ، جگہ کرایہ پردینے والے پروبال (Sin) نہیں جبکہ وہ ناجائزکاموں پرمددکی نیت نہ کرے ۔ 

   محیط برہانی میں ہے:”واذا استاجر الذمى من المسلم دارا ليسكنها فلاباس بذلك لان الاجارة وقعت على امر مباح فجازت وان شرب فيها الخمر او عبد فيها الصليب او ادخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم فى ذلك شى لان المسلم لم يؤاجر لها انما يؤاجر للسكنى، وكان بمنزلة مالو اجر دارا من فاسق كان مباحا، وان كان يعصى فيها“یعنی: مسلمان کے ذمی کو رہنے کے لئے گھر کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ ایک جائز کام کا عقدہے ، تو یہ اجارہ جائز ہوا۔ پھر  اگر وہ اس میں شراب پیے یا صلیب کی عبادت کرے یا خنزیر  رکھے تو مسلمان کو کچھ گناہ نہیں کیونکہ مسلمان نے اسے ان کاموں کے لیے نہیں دیا، اس نے تو صرف رہنے کے لیے دیا ہے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی فاسق کو گھر کرائے پر دینا ،جائز ہے اگرچہ وہ اس میں گناہ بھی کرتا ہے۔(المحیط البرھانی،جلد7، صفحہ483،بيروت )

   سیدی اعلی حضرت،امام اہلسنت ،مولانا الشاہ  امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”جبکہ اس نے صرف مکان کرائے پر دیا ہے، کرایہ داروں نے ہوٹل کیا اور افعال مذکورہ(شراب پینا و دیگر گناہ کے کام ) کرتے ہیں تو زید (کرائے پر دینے والے) پر الزام نہیں لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرى (کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی) اس صورت میں وہ کرایہ کے لئے جائز ہے، اگر اس نے کسی اسلامی جگہ میں خاص اسی غرض ناجائز کےلئے دیا تو گنہ گار ہے، مگر کرایہ کہ منفعت مکان کے مقابل ہے نہ ان افعال کے، اب بھی جائز ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ 520،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور)

   شیخ الاسلام والمسلمین مجد ددین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:’’یہاں دو مقام ہیں، اَول یہ کہ ان لوگوں کو سکونت کے لئے مکان، زراعت کے لئے زمین کرایہ پر دینا جائز ہے یانہیں؟ دوم برتقدیر جواز ان کے مال سے اجرت لینا کیسا۔اول کا جواب،جواز ہے کہ اس نے تو سکونت وزراعت پر اجارہ دیاہے نہ کسی معصیت پر اور رہنا، بونا فی نفسہٖ معصیت نہیں۔ اگر چہ وہ جہاں رہیں معصیت کریں گے، جو رزق حاصل کریں معصیت میں اٹھائیں گے، یہ ان کا فعل ہے جس کا اس شخص(کرائے پر دینے والے) پر الزام نہیں{ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرى ۔۔۔

       دوم کا جواب یہ کہ جس مال کا بعینہ حرام ہونا معلوم ہو اس سے اجرت لینا جائز نہیں، مثلا اجارہ دینے والے کو خبر ہے کہ یہ روپیہ زید نے غصب یاسرقہ، یار شوت یا ہندہ نے زنا یا غنا کی اُجرت یاکسی مسلمان نے خمروخنزیر کی قیمت میں حاصل کئے ہیں، تو ان کا لینا اسے روانہیں، نہ اپنے آتے میں، نہ ویسے۔۔۔۔ ورنہ فتویٰ مطلقا جواز پر ہے، یعنی اگر چہ اس کے پاس اموال حرام ہونا یقینی ہو، مگریہ روپیہ کہ اس کرایہ میں دیتا ہے، بعینہٖ اس کا حرام ہونا معلوم نہیں تو لینا جائز، اگرچہ اس کا اکثرمال حرام ہی ہو۔(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ 141-144،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور، ملتقطا)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فوٹو گرافر کو دکان کرائے پر دینے سے متعلق فرماتے ہیں:’’اس شخص کو دکان کرائے پر دی جاسکتی ہے ، مگر یہ کہہ کر نہ دیں کہ اس میں تصویر کھینچیے ۔ اب یہ اس کا فعل ہے کہ تصویر بناتا ہے اور عذابِ آخرت مول لیتا ہے پھر بھی بہتر یہ ہے کہ۔۔۔  ایسے کو کرایہ پردیں ، جو جائز پیشہ کرتا ہو۔‘‘( فتاویٰ امجدیہ ،جلد3 ،صفحہ 272، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی، ملتقطا )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم