Bank Account Se Bill Jama Karne Aur Raqam Transfer Karne Ke Charges Lena Kaisa ?

بینک اکاؤنٹ سے بل جمع کرنے  اور رقم ٹرانسفر کرنے کے چارجز لینا  کیسا؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-10358

تاریخ اجراء:26رجب المرجب1445 ھ/07فروری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ میں اپنے بینک اکاؤنٹ کی ایپلیکیشن سے لوگوں کے آن لائن پانی، بجلی، گیس وغیرہ کے بل ادا کرتا ہوں،اوران کےپیسے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کرتاہوں۔اس کام کے عوض ہزار روپے پر 20 روپے سروس چارجز کے طور پر لیتا ہوں۔کیا یہ کام جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گیس بجلی وغیرہ کے بلز جمع کرنے،اورپیسے ٹرانسفر کرنےکےعوض طےشدہ سروس چارجز،مثلا: ایک ہزا ر کی ٹرانزیکشن پر 20 روپے لینا جائز  ہے،کیونکہ ایسی منفعت مقصودہ پر اجرت لینا جائز ہوتاہے جس کا حصول اجرت کے ذریعےلوگوں میں رائج ہو،اور بلز جمع کرنا،پیسے ٹرانسفر کرنا، منفعت مقصودہ ہے اور اس کام کے عوض اجر ت  کا لین دین لوگوں میں رائج  بھی ہے، جیساکہ اکابر علمائے اہلسنت نےمنی آرڈر کے ذریعے پیسے بھیجنے پراجرت کے لین دین کوجائز قرار دیا ہے۔

   فتاوی ہندیہ اجارے کی شرائط میں ہے کہ:”منها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة “ترجمہ:ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس کام پر اجارہ ہے وہ منفعت مقصودہ ہو ،اور اسے عادتاً عقد اجارہ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہو۔(فتاوی ھندیہ ،جلد04،صفحہ411،مطبوعہ بیروت)

   اسی حوالے سے بدائع الصنائع میں ہے:”منها أن تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة ويجري بها التعامل بين الناسترجمہ: عقد اجارہ کے درست ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ منفعت مقصودہ ہو  جسے عقد اجارہ کے ذریعے حاصل کرنا  معتاد ہو ،اور لوگوں کے  مابین اس پر تعامل جاری ہو۔(بدائع الصنائع،جلد 4،صفحہ 192،مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے فتاوی رضویہ میں منی آرڈر کےذریعے پیسے بھیجنے پر اجرت کے لین دین کے متعلق  سوال کے جواب میں ارشادفرمایا:”وہ مثل سائر کا روائیہائے ڈاکخانہ کے یقیناً اجرت میں دینے والے اجرت ہی سمجھ کردیتے، لینے والے اجرت ہی جان کرلیتے ہیں ہر گز کسی کے خواب میں بھی یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ ۲/سود کے ہیں، جو الٹا مدیون دائن سے لیتا ہے ڈاکخانے کی اصل وضع ہی اس قسم کی اجارات کے لیے ہے، تویہاں عقد اجارہ کا تحقق اور ان داموں کا اُجرت ہونا اصلاً محل تردد نہیں، اگر کہئے کا ہے کی اجرت، ہاں مرسل الیہ کے گھر تک جانے اور اسے روپیہ دینے اور وہاں سے واپس آنے اور اس سے رسید لانے کی ،کیا یہ منفعت مقصودہ مباحہ نہیں جس پر شرعاً ایراد وعقد اجارہ کی اجاز ت ہو، او ر جب ہے ،بیشک ہے ،تو عجب عجب ہزار عجب کہ عاقدین ایک منفعت مقصودہ جائزہ پر قصد اجارہ کریں عوض منفعت جو کچھ دیں اور اسے اجرت ہی کہیں اجرت ہی سمجھیں او رخواہی نخواہی ان کے قصد جائز کو باطل کرکے اس اجرت کو معاوضہ قرض وربا قرار دیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ566،رضافاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم