Affiliate Marketing Ke Zariye Amazon Wagaira Se Commission Lena Kaisa?

Affiliate مارکیٹنگ کے ذریعے (Amazon) وغیرہ کمپنیوں سے کمیشن لینے کا حکم

مجیب:محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-532

تاریخ اجراء:08صفر المظفر1444ھ/05ستمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ Affiliateمارکیٹنگ ایک ایسا عمل ہے،جس میں کسی دوسرے کی چیز یا سروس کی ایڈورٹائز (Advertise)کر کے پروموٹ (Promote) کیا جاتا ہے اور اس کو بِکوانے پر کمیشن حاصل کیا جاتا ہے۔ہر ویب سائٹ یا کمپنی چاہتی ہے کہ ہماری چیزیں یا سروسز کا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پتا  چلے اوروہ  ہماری چیزیں خریدیں۔ اس کے لیے انہوں نے کمیشن کی بنیاد پر ایفی لیئیٹ(Affiliate) پروگرام بنائے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ہماری ویب سائٹ کی تشہیر کر کے ، گاہک ہم تک لائے گا، تو ہم چیز بکِنے پر اسے کمیشن دیں گے۔

   اسی طرح Amazon بھی ایک مشہور آن لائن ویب سائٹ اور مارکیٹ پلیس (Market Place)ہے۔ اس نے  بھی اپنا ایفی لیئیٹ(Affiliate) پروگرام بنایا ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایمازون کہتا ہے آپ تشہیر کے ذریعے لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لائیں، تو چیز بکنے پر ہم آپ کو کمیشن دیں گےاور اس میں ان کا اصول یہ ہےکہ کوئی بھی شخص ہماری  دی ہوئی  Affiliate ID  کے کسی بھی طرح کے Affiliate Link  یا Advertising Ad  کےذریعے ہماری ویب سائٹ  Amazon.com پر آتا ہے اور ہماری ویب سائٹ سے وہ کوئی بھی ایک یا زیادہ چیزیں خریدتا ہے، تو ہم اس کو ہر خریدی ہوئی چیز کا طے شدہ مخصوص فیصد کمیشن  دیں گے،حتی کہ اگر آپ نے ایمازون ویب سائٹ کے کسی ایک پیج کی تشہیر کی یا کسی مخصوص برینڈ کی  تشہیر کی اور گاہک اس لنک کے ذریعے ایمازون  پر پہنچا اور اس نے کوئی دوسری چیز خریدی تب بھی   ایمازون ،لنک لگانے والے کو کمیشن دے گا ،کیونکہ اس کے ذریعے یہ گاہک ایمازون ویب سائٹ پر پہنچا ہے۔

   ہم ایمازون کے ایگریمنٹ  کے بعد اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ویب سائٹ بنا تے ہیں اور اس پر  مختلف اشیاء کے متعلق مختلف طرح کا ترغیبی اور معلوماتی مواد (Content) لکھتے ہیں، پروڈکٹس کے بارے میں لوگوں کے ریویوز جمع کرتے ہیں ،  اور مارکیٹنگ کرتے ہیں ، یوں اسے اس قابل بناتے ہیں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ وزٹ کریں اور ان اشیاء کی طرف مائل ہوں ۔ اس کام پر کافی محنت کرنی پڑتی ہے اور کافی وقت اور سرمایہ بھی لگ جاتا ہے۔ مختلف اشیاء کی تشہیر کے ساتھ پھر ہم  مواد (Content)  میں Affiliate Link بھی دے دیتے ہیں،  جس کے ذریعے گاہک ایمازون ویب سائٹ پر چلا جاتا ہے اور وہاں سے یہ لنک میں دی ہوئی چیز یا  ایمازون پر رکھی ہوئی کوئی اور متعلقہ یا غیر متعلقہ چیز خریدتا ہے، تو ایمازون ہمیں کمیشن دے دیتا ہے۔ایمازون کمیشن اس لیے دیتا ہے کہ چیز بکنے پر ایمازون کو بھی منافع ہوتا ہے۔

   سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ہمارا ایمازون سے معاہدہ قبول کر کے تشہیر کرنا اور  پھر چیزوں کی خریداری پر ایمازون سے طے شدہ مخصوص فیصد کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں؟یہ بھی واضح کریں کہ اگر ہم نے ایک چیز کا اشتہار لگایا ہے، لیکن گاہک دوسری خریدتا ہے، تو اس پر جو ہمیں کمیشن ملتا ہے ،کیا وہ جائز ہے ؟ جبکہ ہم نےاس دوسری چیز کا لنک تو لگایا نہیں ہوتا،البتہ ہم لنک لگاتے وقت یہ چیز ذہن میں رکھتے ہیں کہ گاہک کو اگر یہ چیز پسند نہ آئے، تو وہ لنک سے جڑی دوسری اشیاء خریدسکے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق  اگر آپ ایمازون(Amazon) پر موجود  کسی جائز پروڈکٹ کی تشہیر یوں کریں کہ اس میں جھوٹ،  دھوکا اور غلط بیانی وغیرہ نہ ہو، تو آپ کا تشہیر کرنا اور خریداری ہونے پر کمیشن لینا جائز ہے(جبکہ ایمازون سے خریداری کا طریقہ غیر شرعی طریقے پر مبنی نہ ہو) پھر چاہےخریدار وہی پروڈکٹ(Product) خریدے جس کا آپ نے اشتہار لگایا تھا یاایمازون پر موجود  کوئی اور پروڈکٹ (Product) خریدے، دونوں صورتوں میں آپ کمیشن کے مستحق ہیں۔

   تفصیل کچھ یوں ہے کہ شرعی اصول کے مطابق  اگر ایک شخص نے دوسرے کی چیز بکوانے کے لیے محنت و کوشش کی، اپنا وقت صرف کیا اور یوں دوسرے کی چیز بکوا دی،تو اس کوشش و محنت کی وجہ سے چیز بکوانے پر عرف میں جتنی مزدوری و  کمیشن رائج ہے، وہ لینا جائز  ہے۔

   اور سوال میں جو تفصیل آپ نے بتائی ہے، اس کے مطابق کسی چیز کو بکوانے میں آپ بھی پروڈکٹس  کے متعلق ترغیبی اور معلوماتی مواد (Content) لکھ کر لوگوں کے ریویوز جمع کرکے اور  مارکیٹنگ وتشہیر کے ذریعے  محنت و کوشش کرتے ہیں اور آن لائن  پروڈکٹس بکوانے میں اس طرح کی  محنت کرنا اور ٹائم صرف کرنا  ہمارے ہاں قابل معاوضہ کام سمجھا جاتا ہےاور اس پر کمیشن لینے  دینے کا  تعامل(رواج ) بھی ہے ،لہذا  آپ  اس محنت و کوشش کی وجہ سے چیز بکنے پر  رائج کمیشن کے مستحق بنتے ہیں ۔

   رد المحتار میں ہے: ” الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة “ترجمہ: محض بتانا اور اشارہ کرنا ايسا عمل نہيں ہے، جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو۔اوراگر کسی نے ايک خاص شخص کو کہا: اگر تو مجھے فلاں چيز پر رہنمائی  کرے ،تو اتنی اجرت دوں گا، اگر وہ شخص چل کر رہنمائی کرے ،تووہ اس چل کر جانے کی وجہ سے اجرت مثل کا مستحق ہوگا ،کيونکہ چلنا ايسا عمل ہے، جس پر عقد اجارہ ميں اُجرت کا استحقاق ہوتاہے۔(رد المحتار، کتاب الاجارہ، جلد6، صفحہ  95،دارالفکر، بيروت)

   امام اہلسنت امام  احمد رضا خان  عليہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہيں :”  اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا،تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے، اس سے زائد نہ پائے گا، اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل سے کم کا ہو، تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہوچکا،خانیہ میں ہے: إن كان الدلال  الأول عرض تعنى وذهب في ذلك روزگاره كان له أجر مثله بقدر عنائه وعمله“(ترجمہ: اگر پہلے دلال کو اس میں مشقت ہوئی اور اس کا وقت اس کام میں صرف ہوا، تواس کو  اس کی محنت اور عمل کے مطابق مثلی اجرت ملے گی۔)

   اشباہ میں ہے:’’ بعہ لی بکذا ولک کذا فباع فلہ اجر المثل‘‘(ترجمہ: اگر دوسرے کو کہا :تو میرے لیے اتنے میں اس کو فروخت کر ، تمہیں اتنی اجرت دوں گا ،  تو اس نے وہ چیز فروخت کردی ،تووہ اجرت مثل کا مستحق ہے )(فتاوی رضويہ،ج19، ص 453، رضا فاؤنڈيشن، لاھور)

   سوال:اب رہا یہ سوال کہ آپ نے جس چیز کا اشتہار لگایا ، کسٹمر نے بعینہ وہ چیز تو نہیں خریدی ،بلکہ ایمازون پر موجود کوئی اور پروڈکٹ  خریدی ہے،  تو اس کا کمیشن کیوں کر درست ہوگا؟

   جواب: تو اس کا جواب  سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کا معاہدہ کس سے ہو رہا ہےاور چیز بکنے پر ایمازون کو کیا فائدہ ہوتا ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایمازون ایک مارکیٹ پلیس(market place) ہے، جس پر ہزاروں لوگ اپنے آن لائن اسٹور (Store)بنا کر اپنی اپنی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ اور جب کسی اسٹور والے کی چیز بکتی ہے، تو ایمازون کو بھی فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ چیز بکنے پر مخصوص کمیشن ایمازون بھی رکھتا ہے ۔چونکہ ایمازون پر موجود کسی بھی پروڈکٹ کے بکنے پر ایمازون کو فائدہ ہوتا ہے، اس لیے ایمازون چاہتا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایمازون مارکیٹ پلیس پر آکر خریداری کریں ۔ اس غرض کے لیے وہ ایفی لیئیٹ(Affiliate)  پروگرام کے تحت لوگوں کو  کمیشن کی بنیاد پر تشہیر کرنے کا کہتا ہے۔

   اور سوال میں جو صورت آپ نے بیان کی ہے ،اس کے مطابق آپ کا  کمیشن کا معاہدہ ایمازون پر موجود کسی اسٹور والے سے نہیں ہوتا، بلکہ خود ایمازون سے ہوتا ہے۔ اگر کسی اسٹور والے سے معاہدہ ہوتا، تو پھر یقیناً آپ اسی وقت کمیشن کے مستحق ہوتے جب اس اسٹور والے کی چیز بکتی  یعنی  کسٹمر اگر کسی دوسرے اسٹور سے چیز خریدتا ،تو آپ کو کمیشن نہ  ملتا ، کیونکہ جس کی چیز بکی اس اسٹور والے سے آپ کا معاہدہ ہی نہیں تھا،لیکن چونکہ یہاں آپ کا معاہدہ ہی ایمازون سے ہے اور اس میں ایمازون کی طرف سے آپ کے ساتھ  طے یہ ہوتا ہے کہ آپ ایمازون پر موجود کوئی بھی پروڈکٹ بکوا دیں، تو آپ کو ہم کمیشن دیں گے، اس لیے اس معاہدے کے تحت چونکہ آپ کی محنت سے ایک کسٹمر ایمازون پر پہنچا اور اس نے خریداری کی، تو آپ کمیشن کے مستحق ہو گئے، اگرچہ کسٹمر نے بعینہ وہی پروڈکٹ نہیں خریدی جس کا آپ نے اشتہار لگایا تھا، کیونکہ یہاں جس سے معاہدہ ہوا ہے گویا اسی کی چیز بکی ہےاور آپ کی محنت و کوشش سے ہی کسٹمر ایمازون پر پہنچا ہے۔

   سوال :ایمازون خود تو اپنی چیز نہیں بیچ رہا ،تو اس سے کمیشن کا معاہدہ کرنا اور کمیشن لینا کیسے درست ہوگا؟

   جواب:ایمازون اگرچہ چیز کا مالک نہیں ہوتا ،لیکن جو فرد ایمازون کے ساتھ ایفی لیئیٹ پروگرام کے تحت  معاہدہ کر کے محنت و کوشش کرتا ہے اور چیز بکنے پر اپنے عمل کے عوض کمیشن پاتا ہے، اس  کے معاہدے اور کمیشن میں کوئی حرج نہیں کہ یہ اجارہ ہے اور اجیر نے مستاجر سے معاہدہ کر کے ایک جائز عمل کیا ہے ،لہذا وہ اپنے عمل پر اجرت کا مستحق ہے۔ اورمستاجر چاہے اپنا کام  کروا رہا ہویاکسی او رکا، اس اعتبار سے اجیر کے اجارے میں کوئی فرق نہیں پڑتا،جیسے زید نے بکر( درزی) کو کپڑا سلائی کے لیے دیا،پھر  بکر نے وہ خودسینے کے بجائے دوسرے درزی مثلا: خالد سے معاہدہ کیا اور خالد سے معاوضہ طے کرکے اس سے سلوا لیا، تو اب خالداور بکر کا معاہدہ جائزبھی ہے  اور خالد اپنے عمل کے بدلے بکر سے معاوضہ لینے کا بھی مستحق ہے، بلکہ علماء نے  یہ بھی فرمایا کہ اگر زید نے بکر کو کہہ دیا تھا کہ تم نے خود ہی سینا ہے، لیکن اس کے باوجود بکر نے خالد سے سلوا کر دیا تب بھی خالد کے عمل کی اجرت بکر پر لازم ہے، اگرچہ اس صورت میں بکر کا خالد سے سلوانا درست نہ تھا۔

   درمختار میں ہے: ”وإذا شرط عمله بنفسه بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره ۔۔۔۔وإن أطلق كان له  أي للأجير أن يستأجر غيره ملتقطا ترجمہ: اور اگر اجارہ کرتے وقت اجیر کےاپنے عمل کی شرط لگائی تھی ،مثلا: اسے کہا تھا کہ تم نے خود یہ کام کرنا ہے یا یہ کہا تھا کہ تم نے اپنے ہاتھ سے یہ کام کرنا ہے، تو اب وہ اجیر کسی دوسرے کو استعمال نہیں کر سکتا۔ اور اگر بات مطلق رکھی تھی (یعنی اس کے اپنے کام کی شرط نہیں لگائی تھی )تو اجیر کو اجازت ہے کہ وہ دوسرے سے کام کروائے۔ (درمختار و رد المحتار، جلد6، صفحہ18، دار الفکر، بیروت)

   درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے: ”لو أعطى أحد جبة إلى خياط على أن يخيطها بنفسه وأعطاها الخياط إلى ابنه أو وكيله أو شخص آخر أجنبي ليخيطها بأجرة معلومة، فليس لذلك الخياط أجرة على ذلك الشخص لعدم العقد بينها أصلا وعليه أداء الأجر المسمى لابنه أو وكيله، أو لذلك الشخص الأجنبي (رد المحتار)“ترجمہ: اگر کسی نے درزی کو جبہ دیا کہ وہ اسے خود سلائی کر کےدے اور اس درزی نے اپنے بیٹے یا اپنے وکیل یا کسی اجنبی شخص کو معلوم اجرت کے بدلے سینے کے لیے دے دیا  ، تو جس درزی نے سیا ہے، اس کی اجرت جبے کے مالک پر لازم نہیں ہوگی، کیونکہ ان دونوں کے مابین تو کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں ہے ۔ ہاں جس درزی نے سینے کے لیے آگے اپنے بیٹے یا وکیل یا کسی اجنبی شخص کو دیا تھا ،اس پر مقررہ اجرت ادا کرنا لاز م ہے۔ (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام ، جلد1، صفحہ 657، دار الجيل)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم