کیا کمیشن کا کام غلط ہے؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولیٰ 1442ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کمیشن کا لفظ تو عام طور پر رشوت کے لَین دَین میں استعمال ہوتا ہے کیا اس کی حلال صورت بھی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ایک لفظ کئی مواقع پر استعمال ہوتا ہو تو ہر جگہ اس کا جو معنیٰ بنتا ہے وہ سامنے رکھنا ضروری ہے جیسا کہ لفظِ حرام ، ولدِ حرام (ناجائز بچے) کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور مسجدِ حرام کے لئے بھی لیکن موقع اور پسِ منظر متعین کرتا ہے کہ یہاں کیا مراد ہے۔ کمیشن یا بروکری وہ ذریعۂ آمدنی ہے جس میں اپنی محنت کے ذریعے ایک سروس دی جاتی ہے اور شرعی ضابطے پورے کرتے ہوئے اس ذریعے سے روزی کمانا حلال ہے اور یہ طریقۂ  آمدنی صدیوں سے رائج ہے اور کسی دور میں بھی علماء نے اس کو حرام نہیں کہا۔ البتہ رشوت کو کمیشن کہنے سے رشوت حلال نہیں ہوگی بلکہ وہ حرام ہی رہے گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم