دوکان کے سامنے ٹھیلا لگانے والے سے کرایہ لینا کیسا اور اس ٹھیلے والے سے خریداری کرنا کیسا ؟

مجیب:مولانا شاکر مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7153

تاریخ اجراء:13جمادی الاولی1442ھ/29دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ دوکان کے سامنے جواسٹالزیاٹھیلے لگے ہوتے ہیں،وہ سرکاری جگہ پرلگے ہوتے ہیں ،لیکن دوکاندار بعض اوقات انہیں جگہ فروخت کردیتے ہیں یاان سے ماہانہ کرایہ وصول  کرتے ہیں ،حالانکہ وہ جگہ دوکاندارکی نہیں ہوتی۔کیا دوکاندارکااپنی دوکان کے سامنے والی سرکاری جگہ بیچنایاکرایہ پر دیناشرعا جائزہے؟نیزچلتے رستے میں بیٹھ کرسامان فروخت کرناشرعاجائزہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دوکاندارکااپنی دوکان سے باہررستے پرلگے ٹھیلے یااسٹالزکی جگہ فروخت کرنا یا کرایہ پر دینا شرعاًجائزنہیں،کیونکہ دوکان سے باہررستے میں جس جگہ پر ٹھیلے یااسٹالز لگے ہوتے ہیں وہ جگہ گورنمنٹ کی ملکیت میں ہوتی ہے،دوکاندارکی نہیں اورانسان جس چیزکامالک نہ ہو،اسے بیچنے سے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے منع فرمایاہے،نیزبیع اوراجارے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ بیچنے والااورکرایہ پر دینے والا،چیزکامالک بھی ہو،جبکہ دوکانداردوکان سے باہررستے کی جگہ کامالک نہیں ہوتا،لہذانہ یہ بیچ سکتاہے اورنہ ہی یہ کرایہ پردے سکتاہے۔

    راستے میں بیٹھ کرسامان فروخت کرنااس شرط کے ساتھ جائزہے کہ راستہ کشادہ ہوکہ ان کے بیٹھنے سے گزرنے والوں کوتکلیف نہ ہواورقانوناًبھی اجازت ہو،کیونکہ اگران کے بیٹھنے سے گزرنے والوں کوتکلیف ہوجیسا کہ ہمارے ملک میں  اکثر جگہوں پر تکلیف دہ صورت ِ حال ہی  ہے یاخلافِ قانون ہونے کی صورت میں ذلت  یا سزا اٹھانی پڑے گی یا رشوت دینی پڑے   گی تو ان کاسامان فروخت کرنا،ناجائزہےاوراس صورت میں ان سے خریدنابھی منع ہے، کیونکہ ان سے خریدناان کی ناجائزکام پرمددکرناہے اورناجائزکام پرمددکرنامنع ہے کہ جب لوگ ان سے خریدیں گے تویہ وہیں پربیچیں گے اورجب لوگ ان سے خریدناچھوڑدیں گے ،تویہ بھی فروخت کرناچھوڑدیں گے۔

    جوچیزملکیت میں نہ ہو ، اسے بیچنے کی ممانعت کے بارے میں جامع ترمذی میں ہے:”قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: لاتبع ما لیس عندک“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:جوچیزتمہاری ملکیت میں نہیں تواسے  فروخت نہ کرو۔

(جامع ترمذی،ج02،ص525،مطبوعہ دارالغرب الاسلامی،بیروت)

    مبسوط میں ہے:”تأويل النهي عن بيع ما ليس عند الإنسان بيع ما ليس في ملكه فقال صلى الله عليه وسلم لا تبع ما ليس عندك“ترجمہ:انسان کے پاس جوچیزموجودنہ ہواسے بیچنے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس چیزکوبیچناہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم اس چیز کوفروخت نہ کرو جو تمہارے پاس نہ ہو۔

(المبسوط للسرخسی،ج13،ص70،مطبوعہ دارالمعرفہ،بیروت)

    ردالمحتار میں ہے:”شرط المعقود علیہ ان یکون موجودامالامتقوما مملوکا فی نفسہ،وان یکون ملک البائع فیما یبیعہ لنفسہ“ترجمہ:معقودعلیہ(جس چیزپرعقد ہو رہاہے)کی شرط یہ ہے کہ وہ موجود ، مالِ متقوم اور مملوک ہواوریہ  کہ جس چیزکوبائع بیچ رہاہے وہ اس کی ملکیت میں ہو۔

        (ردالمحتار،ج05،ص58،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

    بہارشریعت میں ہے:”بیع کے لیے چندشرائط ہیں:بائع ومشتری کاعاقل ہونامبیع کامملوک ہونا اوراگربائع اس چیز کواپنے لیے بیچتا ہوتواس چیز کاملکِ بائع میں ہونا ضروری ہے۔“                           

(بھارشریعت،ج02،ص616،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    جوچیزملکیت اورولایت  میں نہ ہواسے اجارے پر نہ دینے کے بارے میں فتاوی ہندیہ میں ہے:”إذا بنى المشرعة على ملك العامة ثم آجرها من السقائين لا يجوز سواء آجر منهم للاستقاء أو آجر منهم ليقوموا فيها ويضعوا القرب“ترجمہ:جب کسی نے (دریا کے کنارے)عوام کی ملکیت پرگھاٹ بنایاپھراس نے پانی پلانے والوں کوکرایہ پردے دیا،تویہ جائزنہیں،خواہ اجارہ پانی پینے پرکیا ہو یاوہاں قیام کرنے اوربرتن رکھنے پر کیا ہو۔

(فتاوی ھندیہ،ج04،ص453،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

    بدائع الصنائع میں ہے:”ومنها الملك والولاية فلا تنفذ إجارة الفضولي لعدم الملك، والولاية “ترجمہ:اجارے کی شرائط میں سے ایک شرط ملک اورولایت ہے،پس فضولی کااجارہ کرناملک اورولایت نہ ہونے کی وجہ سے نافذ نہیں ہوگا۔

(بدائع الصنائع،ج04،ص177،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    راستہ میں سامان بیچنے کے بارے میں منحۃ السلوک میں ہے:”(ويباح الجلوس في الطريق للبيع إذا كان واسعاً، لا يتضرر الناس به) أي بجلوسه (ولو كان الطريق ضيقاً: لا يجوز) لأن المسلمين يتضررون بذلك وقال عليه السلام:”لا ضرر ولا ضرار في الإسلام“ترجمہ:راستے میں اشیاء بیچنے کے لئے بیٹھناجائزہے، جبکہ راستہ کشادہ ہوکہ لوگوں کواس کے بیٹھنے سے تکلیف نہ ہوتی ہواوراگرراستہ تنگ ہوتوجائزنہیں،کیونکہ مسلمانوں کواس سے تکلیف ہوتی ہے اورسرکارصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اسلام میں نہ اذیت لیناہے نہ دیناہے۔

(منحۃ السلوک شرح تحفۃ الملوک،ج01،ص428،مطبوعہ دارالفکر ، بیروت)

    ضررنہ ہونے کی صورت میں خریدنا ،جائزہونے کے بارے میں فقیہ النفس امام قاضی خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:” إن كان الطريق واسعاً لا يتضرر الناس بقعوده لا بأس بالشراء منه “ترجمہ: اگررستہ کشادہ ہے جس میں بیٹھنے سے لوگوں کوگزرنے میں تکلیف نہیں ہوتی، تواس سے خریدنے میں کوئی حرج نہیں ۔

     (فتاوی خانیہ،ج02،ص142،مطبوعہ دارالفکر بیروت)

    ضرردینے اورلینے سے بچنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’لا ضرر ولا ضرار،من ضار ضرہ اللہ،ومن شاقّ شق اللہ علیہ‘‘ترجمہ:بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ:’’نہ ضررلونہ ضرردو۔جوضرردے اللہ عزوجل اس کوضرردے گا اورجومشقت میں  ڈالے اللہ عزوجل اس کو مشقت میں ڈالےگا ۔

               (سنن الدارقطنی،ج4،ص51،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

    خودکوذلت میں ڈالنے سے بچنےکے متعلق جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ،مشکوۃ المصابیح میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے: ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ینبغی للمؤمن ان یذل نفسہ‘‘ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:مومن کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت ورسوائی میں مبتلاکرے ۔

(جامع الترمذی،ابواب الفتن،باب ماجاء فی النھی عن سب الریاح،ج02،ص498،مطبوعہ لاھور)

    امام محمودبن احمدعینی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’اذلال النفس حرام‘‘ترجمہ:نفس کوذلت پرپیش کرناحرام ہے۔

(البنایہ شرح الھدایہ،کتاب النکاح،باب فی الاولیاء والاکفاء،ج04،ص619،مطبوعہ کوئٹہ)

    خلافِ قانون امرکاارتکاب کرنےسے بچنے کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں :’’ایسے امر کا ارتکاب  جو قانوناًناجائز ہواور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاًبھی ناجائز ہوگا کہ ایسی بات کے لئے جر مِ قانونی کامرتکب ہوکر اپنے آپ کوسزااور ذلت کے لئے پیش کرناشرعاًبھی روانہیں۔‘‘

      (فتاوی رضویہ ،ج20،ص192،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    ناجائزکام پرمددکرنے کے ممنوع ہونے کے بارے میں ارشادِخداوندی ہے:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾ترجمۂ کنز الایمان:اور گناہ اورزیادتی پر باہم مدد نہ دو۔                                                                

(پارہ 6 ، سورۃالمائدہ،آیت 02)

    مذکورہ بالاآیت کے تحت امام ابوبکراحمدالجصاص فرماتےہیں:’’﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾نھی عن معاونۃ غیرناعلی معاصی اللہ تعالی‘‘ترجمہ:آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی نافرمانی والے کاموں میں ایک دوسرے کی مددکرنے سے منع کیاگیاہے۔

(احکام القرآن،ج20،ص429،مطبوعہ کراچی )

    بیچنے کے ناجائزہونے کی صورت میں اس سے خریدنے میں اس کی مددکرنے کے بارے میں فقیہ النفس امام قاضی خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:”والشراء منه يكون حملاً له على المعصية وإعانة له على ذلك“ترجمہ:اوراس سے خریدنااسے گناہ پرابھارنااورگناہ پراس کی مددکرناہے۔

 (فتاوی خانیہ،ج02،ص142،مطبوعہ دارالفکر ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم