میت کو غسل دینے کی اُجرت لینا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الآخر 1442ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں میت کو غسل دینے کا کام کرتاہوں اور اس کام کی اُجرت لیتا ہوں ، کیا اس کام کی اُجرت لینا میرے لیے جائز  ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگر وہاں آپ کےعلاوہ  کوئی دوسرا شخص موجود ہو جو میت کو نہلا سکتاہے تو آپ  کےلیے غسلِ میت کی اُجرت لینا جائز ہے  لیکن اگر کوئی دوسرا موجود نہ ہوجو میت کو غسل دے سکتاہوتو آپ  پر میت کو غسل دینا واجب ومتعین ہوگا ، لہٰذا اس  صورت میں آپ کے لئے غسل ِمیت  کی اجرت  لینا جائز نہیں ہوگا۔ یہ یاد رہےکہ یہا ں غسل دینے والے سے مراد پیشہ ور غاسل نہیں ، نہ ہی یہاں دل نہ ماننے یا مرضی  نہ ہونے یا پہلے کبھی غسل نہ دینے کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص  غسل نہیں دے سکتا ، بلکہ یہاں صحت مند اور عاقل  شخص مراد ہے  جو عملاً میت کو غسل دے سکتاہے۔

    فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا کہ اگر میت کے پاس صرف عورتیں اور ایک چھوٹا بچہ ہو جو میت کو نہلاسکتا ہے تو اس بچے کو غسل کا طریقہ بتایا جائے گا تاکہ وہ  میت  کو غسل دے یعنی  اس صورت میں بھی غسل دینا ساقط نہیں ہوگا۔ تو کسی کا یہ کہنا کہ میں نے کبھی غسل نہیں دیا میں کیسے دوں گا اس بات کو لازم نہیں کہ  اس شخص کو غسل دینے کے لئے نا اہل شمار کیا جائے۔

    بہار شریعت میں ہے : “ جنازہ اٹھانے یا میت کو نہلانے کی اجرت دینا وہاں جائز ہےجب ان کےعلاوہ دوسرے لوگ بھی اس کام کے کرنے والے  ہوں اور  اگر ا س کے سواکوئی نہ ہوتو اُجرت پر یہ کام نہیں کیا جاسکتاکیونکہ یہ شخص اس صورت میں اس کام کےلیے متعین ہے۔ “

(بہارِ شریعت ، 3 / 149)

    اسی میں ہے : “ چھوٹا لڑکا اس قا بل ہوکہ نہلاسکے تواسے بتائے اور وہ نہلائے۔ “

(بہار شریعت ، 1 / 814)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم