ملازم کے لیٹ آنے پر جرمانہ لینا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6586

تاریخ اجراء:19صفر المظفر1442ھ07اکتوبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ زید ایک شخص کے پاس  پانچ گھنٹے کا ملازم ہے اور وہ اس وقت میں مالک(جس کا ملازم ہے،اس ) کے کہنے کے مطابق بچوں کو آن لائن قرآن پاک پڑھاتا ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زید  وقتِ اجارہ میں سو جاتا ہے  یا اجارہ ٹائم شروع ہوجانے کے بعد تاخیر سے آتا ہے،تو اس وجہ سے مالک زید سے جرمانہ وصول کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ مالک کا اس طرح زید سے جرمانہ وصول کرنا کیسا ؟

    نوٹ:اجارہ ٹائم میں سونے یا لیٹ آنے کی وجہ سے جتنی کٹوتی بنتی ہے،اس  سے ہٹ کر کچھ رقم بطورِ جرمانہ زید سے وصول کی جاتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں دو چیزوں کا ذکر ہے۔(1)زید کا دورانِ اجارہ سو جانا یا وقتِ اجارہ شروع ہو جانے کے بعد لیٹ آنا (2)ان وجوہات کی بنیاد پر مستاجِر(زید جس کا ملازم ہے،اس ) کازید سے  جرمانہ وصول کرنا۔دونوں صورتوں کا حکم بالترتیب درج ذیل ہے:

    (1)زید  کا مستاجِر کی اجازت کے بغیر دورانِ اجارہ سوجانا یا وقتِ اجارہ شروع ہوجانے کے بعد عُرف سے ہٹ کر قصداًلیٹ آنا،ناجائز اور گناہ ہے، کیونکہ زیداجیرِ خاص یعنی خاص وقت میں خاص شخص کاملازم ہےاور ایسے  ملازم پر شرعاً لازم ہوتا ہے کہ وہ مستاجِر کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق وقتِ اجارہ میں اچھے طریقے سے کام سر انجام دے اور  اس دوران مستاجِر کی اجازت کے بغیر،خدمتِ مُفَوّضہ یعنی سپرد کیے گئے کام کے سِوا،عُرف سے ہٹ کر کوئی بھی کام نہ کرے،یہاں تک کہ کام نہ بھی ہو، تب بھی اس پر تسلیم نفس یعنی کام پہ حاضر رہنا ضروری ہے،تاکہ کام آنے کی صورت میں فوراًاسے بجا لانا ، ممکن ہواور اگر کوئی ملازم اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے ،مثلاً عُرف سے ہٹ کر مقررہ ٹائم سے لیٹ آتا ہے یا جلدی چلا جاتا ہے یا دورانِ ڈیوٹی اپنا ذاتی یا کسی دوسرے کا کام کرتا ہے یا سوجاتا ہےوغیرہ ،تو وہ  گنہگار ہے اور شرعاًاتنے وقت کی تنخواہ لینا بھی حرام ہے، لہٰذاپوچھی گئی صورت میں  زید پر لازم ہے کہ وہ حکمِ شرعی پر عمل کرتے ہوئے مستاجِر کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق عمل کرے اور جان بوجھ کر اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے ،ورنہ گنہگار اور عذابِ نار کا حق دار ہو گا۔

    مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ آپس میں کیے گئے معاہدے کو پورا کریں ۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ﴾ترجمہ:اے ایمان والو !تمام عہد پورے کیا کرو۔

(پارہ 6،سورۃ  المائدہ،آیت1)

    اس آیت کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے:’’(اس آیت میں)خطاب مومنین کو ہے ۔انہیں عقود کے وفا(پورا) کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔حضرت ِ ابن ِ عبا  س رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ان عقود سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں، جو حرام و حلال کے متعلق قرآن پاک میں لیے گئے۔بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس میں مومنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں ۔‘‘

          (تفسیرِ خزائن العرفان ، تحت ھذہ الاٰیۃ)

    اجیرِ خاص کی تعریف کے بارے میں تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’الاجیر الخاص ویسمی ’’اجیر وحد‘‘وھو من یعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصیص ویستحق الاجر بتسلیم نفسہ فی المدۃ وان لم یعمل کمن استؤجر شھرا للخدمۃ او شھرا لرعی الغنم المسمی باجر مسمی‘‘ترجمہ:اجیر خاص کا دوسرا نام اجیرِ وحد بھی ہے اور اس سے مراد وہ شخص ہے، جو مقررہ وقت میں خاص طور پر کسی ایک کا کام کرے اور ایسا شخص مدتِ اجارہ میں تسلیمِ نفس کے ساتھ اجرت کا حق دار ہو گا،اگرچہ (مستاجِر کی طرف سے کام نہ ملنے کی صورت میں )کام نہ کرے۔جیسے  کسی کو ایک ماہ تک خدمت یا معین بکریاں چَرانے کے لیے معین اجرت کے بدلے میں اجیر رکھا جائے(تو وہ اجیر ِ خاص ہے) ۔

(تنویر الابصار مع در مختار ،ج6،ص69،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

    اجیرِ خا ص کا وقتِ اجارہ میں خدمتِ مفوضہ کے علاوہ کوئی اور کام کرنا ، جائز نہیں ۔چنانچہ درمختار میں ہے:’’وليس للخاص ان يعمل لغيره ولو عمل نقص من اجرته بقدر ما عمل‘‘ترجمہ:اجیرِ خاص کاوقتِ اجارہ میں مستاجِر کے علاوہ کسی دوسرےکا کام کرنا، جائز نہیں اور اگر کر لیا،تو جتنی دیر اس کا کام کیا اس کے مطابق اس کی تنخواہ میں سے کمی کی جائے گی ۔

 (در مختار مع رد المحتار ،ج6،ص70،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

    اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’مدرسین و امثالہم اجیرِ خاص ہیں اور اجیرِ خاص پر وقتِ مقررہ معہود میں تسلیمِ نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے ،اگرچہ کام نہ ہو ۔مثلا :مدرّس وقتِ معہود پر مہینہ بھر برابر حاضر رہا اور طالبِ علم کوئی نہ تھا کہ سبق پڑھتا ، مدرس کی تنخواہ واجب ہوگئی۔ ہاں اگر تسلیمِ نفس میں کمی کرے مثلا بلا رخصت چلا گیا یا رخصت سے زیادہ دن لگائے یا مدرسہ کا وقت چھ گھنٹے تھا، اس نے پانچ گھنٹے دئے یا حاضر تو آیا، لیکن وقتِ مقرر خدمتِ مفوضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام، اگرچہ نماز نفل یا دوسرے شخص کے کاموں میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ہو گئی ۔یونہی اگر آتا اور خالی باتیں کرتا چلا جاتا ہے ،طلبہ حاضر ہیں اور پڑھاتا نہیں کہ اگرچہ اجرت کام کی نہیں، تسلیم نفس کی ہے، مگر یہ منع نفس ہے ،نہ کہ تسلیم۔ بہر حال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے، اتنی تنخواہ وضع ہو گی۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج19،ص506،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    مزید ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :’’(اجارے میں )جو جائز پابندیاں مشروط تھیں ،ان کا خلاف حرام ہے اوربِکے ہوئے وقت میں اپنا کام کرنا بھی حرام ہے اور ناقص کام کر کے پوری تنخواہ لینا بھی حرام ۔‘‘

                                                            (فتاوی رضویہ ،ج19،ص521،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    (2)اوپر معلوم ہو چکا کہ زید کا دورانِ اجارہ سوجانا یا عرف سے ہٹ کر قصداًلیٹ آنا،ناجائز اور گناہ ہے،لیکن یاد رہے کہ ان معاملات کی وجہ سے مستاجِر کا زید سے جرمانہ وصول کرنا ،جائز نہیں ہے،کیونکہ مالی جرمانہ منسوخ ہو چکا ہے اور منسوخ پر عمل حرام ہے۔البتہ دورانِ اجارہ زید جتنی دیر سوجاتا ہےیاعُرف سے ہٹ کر  جتنا لیٹ آتا ہے،مستاجِر اتنے وقت کی زید کی تنخواہ سے کٹوتی کر سکتا ہے۔

    اسلام میں مالی جرمانہ جائز نہیں ۔چنانچہ بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:’’التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام، ثم نسخ‘‘ ترجمہ:مالی جرمانہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا، پھر منسوخ ہوگیا۔

 (بحرالرائق شرح کنز الدقائق،ج5،ص68،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:’’تعزیر بالمال منسوخ ہےاور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔درمختار میں ہے:’’ لا باخذمال فی المذھب‘‘ترجمہ:مالی جرمانہ مذہب کی رو سے جائز نہیں ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج5،ص111،مطبوعہ رضافاونڈیشن،لاھور)

    نوٹ :ملازمت سے متعلق مزید اہم مسائل جاننے  کے لیے مکتبۃ المدینہ کا مطبوعہ رسالہ بنام ’’حلال طریقے سے کمانے کے 50مدنی پھول‘‘کا مطالعہ فرمائیں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم