Shohar Ne Marne Se Pehle Iddat Na Karne Ki Wasiyat Ki Ho To Kya Hukum Hai ?

شوہرنے مرنے سے پہلے عدت نہ کرنے کی وصیت کی ہو توکیا حکم ہے؟

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2800

تاریخ اجراء:14ذوالحجۃالحرام1445 ھ/21جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرے کزن  کا چند  دن پہلے انتقال ہوا ہے،  اس  نے مرنے سے پہلے اپنی بیوی  کو وصیت کی  کہ میرے  مرنے کے بعد تم نے عدت نہیں بیٹھنا  ۔ تو ایسی وصیت کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      شوہرکاعدت نہ کرنے کی وصیت کرناسخت ناجائزوگناہ ہے اورایسی وصیت مردودوباطل ہےاورایسی وصیت پرعمل کرنا،ناجائزوگناہ ہے  ۔لہذا عورت  پر لازم ہے کہ  وہ شوہر کے فوت ہونے کی صورت میں اگرحاملہ نہیں تو    چار ماہ دس دن عدت وفات گزارے  اوراگرحاملہ ہے توجب تک بچہ پیدانہ ہوجائے اس وقت تک عدت وفات گزارے(یعنی عدت وفات میں جن پابندیوں کاحکم ہے وہ بجالائے)کہ     طلاق کی عدت کی طرح وفات کی عدت بھی   عورت   پرفرض ہے ،   جس کوچھوڑنے پر وہ سخت گنہگار ہوگی ۔

   محیط برھانی میں ہے "فتجب عدة الوفاة بانتهاء النكاح"ترجمہ:عدت وفات واجب ہوتی ہے نکاح کے ختم ہونے کی وجہ سے ۔(المحیط البرھانی،کتاب الطلاق ،الفصل السادس والعشرون،ج03،ص463،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

      عدتِ وفات کے متعلق مجمع الانہر میں ہے” ( و ) عدة الحرة مؤمنة أو كافرة تحت مسلم صغيرة أو كبيرة ولو غير مخلو بها (للموت في نكاح صحيح أربعة أشهر وعشرة أيام)“یعنی آزاد عورت جو نکاح صحیح کے ذریعے مسلمان کی بیوی ہو ،اس کی عدت وفات چار ماہ دس دن ہے اگر چہ بیوی مؤمنہ ہو یا کتابیہ ، چھوٹی ہو یا بڑی ہو اگر چہ کہ اس کے ساتھ خلوت نہ کی گئی ہو۔(مجمع الانھر، باب العدۃ، ج 02، ص 144-143،مطبوعہ کوئٹہ)

   تبیین الحقائق میں ہے " عدة الحامل وضع الحمل سواء كانت حرة أو أمة، وسواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة "ترجمہ: حمل والی کی عدت بچے کاپیداہوناہے برابرہے کہ وہ آزادہویالونڈی اوربرابرہے کہ عدت طلاق کی ہویاوفات کی ۔(تبیین الحقائق،کتاب الطلاق،باب العدۃ،ج3،ص28،المطبعۃ الکبری الامیریۃ،بولاق،قاھرہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”متوفیہ الزوج مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ شرعاً اس کے لئے عدت ہے یانہیں؟“اس کے جواب میں فرمایا:”وفات کی عدت عورت غیر حامل پر مطلقا چار مہینے دس دن ہے خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ،  مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ۔“(فتاوی رضویہ، ج13، ص293، رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم