Rukhsati Se Pehle Hi Shohar Ka Inteqal Ho Jaye To Kya Phir Bhi Iddat e Wafat Lazim Hogi?

رخصتی سے پہلے ہی شوہر کا انتقال ہوجائے تو کیا پھر بھی عدتِ وفات لازم ہوگی ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12800

تاریخ اجراء:24رمضان المبارک1444ھ/15اپریل2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کا نکاح ہوا مگر رخصتی نہیں ہوئی۔  وہ اپنی منکوحہ سے کبھی بھی تنہائی میں نہیں ملا، ہاں ایک دو شادی کے پروگرامز میں اس کی اپنی منکوحہ سے ملاقات ضرور ہوئی تھی، اب رضائے الہی سے  زید کا انتقال ہوگیا ہے۔

    بیان کردہ صورت میں آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ زید کی منکوحہ پر عدت لازم ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی تو کتنی عدت لازم ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ ، بہر صورت اس پر عدتِ وفات لازم ہوتی ہے  کیونکہ اس عدت کا سبب، موت ہے لہذا پوچھی گئی صورت میں زید کی منکوحہ پر بلاشبہ چار ماہ دس دن کی عدتِ وفات لازم ہے۔

   عدتِ وفات کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے :﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚترجمہ کنز الایمان: ”اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔(القرآن الکریم،پارہ02،سورۃ البقرۃ، آیت:234)

   اس آیتِ مبارک کے تحت تفسیرِ نعیمی میں ہے:”عدت موت ہر بیوی پر یکساں لازم ہے کہ حاملہ اور لونڈی کے سوا باقی سب عورتیں بچی ہوں یا بڈھی ، خلوتِ صحیحہ ہوئی ہو یا نہ ، چار ماہ دس دن یہ ہی عدت گزاریں گی ۔(تفسیرِ نعیمی، سورۃ البقرۃ،  ج02، ص 494،  نعیمی کتب خانہ، گجرات )

   عدتِ وفات کے متعلق مجمع الانہر، بحر الرائق، نہر الفائق اور فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ ( و ) عدة الحرة مؤمنة أو كافرة تحت مسلم صغيرة أو كبيرة ولو غير مخلو بها (للموت في نكاح صحيح أربعة أشهر وعشرة أيام)یعنی آزاد عورت جو  نکاح صحیح کے ذریعے مسلمان کی بیوی ہو ،اس   کی عدت  وفات چار ماہ دس دن ہے اگر چہ  بیوی مؤمنہ ہو یا کتابیہ ، چھوٹی ہو یا بڑی ہو اگر چہ  اس کے ساتھ خلوت نہ ہوئی  ہو۔(مجمع الانھر، باب العدۃ، ج 02، ص 144-143،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”متوفیہ الزوج مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ،  شرعاً اس کے لئے عدت ہے یانہیں؟“اس کے جواب میں ہے:”وفات کی عدت عورت غیر حامل پر مطلقا چار مہینے دس دن ہے خواہ صغیرہ ہو یاکبیرہ، مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ۔(فتاوی رضویہ، ج13،  ص293، رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   مفتی امجد علی اعظمی  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”صغیر و صغیرہ کا نکاح ہو اور قبل دخول و قبل خلوت صغیر کا انتقال ہوگیا، اب تحقیق طلب یہ امر ہے کہ ایسی صورت میں صغیرہ پر عدت واجب ہے، یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”صورتِ مذکورہ میں عدت واجب ہے ۔ زوجہ یا شوہر کا صغیرہ یا صغیر ہونا مانع عدت موت نہیں ہے اور موت میں دخول یا خلوت ہونا بھی وجوب عدت کے لیے شرط نہیں کہ اس عدت کا سبب موت ہے۔ قرآن مجید میں ہے:" وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ ۔۔۔الخ" ۔“ (فتاوٰی  امجدیہ، ج02، ص 290-289، مکتبہ رضویہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم