Iddat Mein Nikah Karna Kaisa ?

 

عدت میں نکاح کرنا کیسا ؟

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3022

تاریخ اجراء: 25صفر المظفر1446 ھ/31اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   عدت کے دوران نکاح منعقد ہوجاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عدت کے دوران نکاح کرنا ،یہاں تک کہ نکاح کا پیغام بھیجنا بھی ناجائز و حرام ہے۔اگر کسی نے عدت کے دوران نکاح کیا ،تو اس کی دو صورتیں ہیں:

   (1)اگر مرد کو نکاح کرتے وقت اُس عورت کا عدت میں ہونا معلوم تھا ،تو یہ نکاح باطل ہو ا کہ اصلاً نکاح ہوا ہی نہیں ،یہاں تک کہ اگر اُن میں میاں بیوی والے معاملات یعنی ہمبستری  ہوئی ،تو زِنا ہوا۔

   (2)اور اگر مرد کو نکاح کرتے وقت اُس عورت کا عدت میں ہونا معلوم نہ تھا ،تو اس صورت میں نکاح فاسد ہوااور اب ان دونوں کے درمیان متارکہ ضروری ہے یعنی دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بارے میں مثلاً یہ کہہ دے کہ میں نے اسے چھوڑدیا۔

   یادرہے کہ مذکورہ نکاحِ فاسد والی صورت میں اگر انہوں نے ہمبستری کرلی ،تو عورت پر اس ہمبستری کی عدت گزارنا بھی ضروری ہوگا۔

   عدت کے علم  کے باوجود نکاح کرنے کی صورت میں نکاح نہ ہونے اور نکاح فاسد میں وطی کی صورت میں عدت لازم ہونے کے متعلق  رد المحتار علی الدر المختار میں ہے”أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة۔۔۔ الدخول في النكاح الفاسد موجب للعدة“ترجمہ:غیر کی منکوحہ یا معتدہ (عدت والی)سے نکاح کرنے  کی صورت میں،اس سے دخول کرنے سے عدت لازم نہ ہوگی جبکہ مرد اس عورت کے، غیر کے ساتھ  نکاح یا عدت میں ہونے کو جانتا ہو،کیونکہ اس نکاح کے جواز کا قول کسی نے نہیں کیا ،لہذا اصلاً نکاح  منعقد ہی نہ ہوا ،اسی بنیاد پر نکاح فاسد اور باطل میں عدت کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے ۔۔۔نکاح فاسد میں دخول عدت کو لازم کردیتا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الطلاق،باب العدۃ،ج 3،ص 516، دارالفکر ،بیروت)

   عدت والی عورت  سے نکاح کرنے کے بارے میں امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” اگر اس دوسرے شخص کو وقت نکاح معلوم تھا کہ عورت ہنوزعدت میں ہے یہ جان کر اس سے نکاح کرلیا جب تو وہ زنائے محض تھا عدت کی کچھ حاجت نہیں نہ طلاق کی ضرورت بلکہ ابھی جس سے چاہے نکاح کرے جبکہ شوہر اول کی عدت گزر چکی ہو اور اگر اسے عورت کا عدت میں ہونا معلوم نہ تھا توطلاق کی اب حاجت نہیں مگر متارکہ ضرو ر ہے یعنی شوہرکا عورت سے کہنا کہ میں نے تجھے چھوڑدیا یا عورت کا اس سے کہہ دینا کہ میں تجھ سے جداہوگئی، اس کے بعد عدت بیٹھے، عدت کے بعد جس سے چاہے نکاح کرے۔“(فتاوی رضویہ،ج 11،ص 421،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   عدت کے دوران نکاح کے حکم کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:”عد ت میں نکاح تو نکاح، نکاح کا پیغام دینا حرام ہے، جس نے دانستہ عدت میں نکاح پڑھایا اگر حرام جان کر پڑھایا سخت فاسق اور زنا کا دلال ہوا۔“ (فتاوی رضویہ ،ج 11 ،ص 266، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم