Iddat e Wafat Ki Muddat Aur Us Mein Parde Ka Hukum?‎

عدتِ وفات کی مدت اور اس میں پردے کا حکم

مجیب:مولانا سرفراز اخترصاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:har:5072

تاریخ اجراء:26ربیع الاول1440ھ/05دسمبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔انتقال کی انگریزی تاریخ 2018۔10۔21 اور چاند کی تاریخ12صفر المظفر1440ہے۔اس تاریخ کے حساب سے آپ ہمیں بتا دیں کہ عدت کتنی ہوگی اور یہ بھی بتادیں کہ عدت میں کس کس سے پردہ کرنا ہوگا؟

     نوٹ!عورت حاملہ نہیں ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     غیر حاملہ عورت کے شوہر کا انتقال اسلامی مہینے کی پہلی تاریخ کو ہو ، تو وفات کی عدت چاند کے حساب سے چار ماہ اور دس دن ہے اگرچہ مہینے تیس سے کم کے ہوں۔اگر انتقال اسلامی مہینے کی پہلی تاریخ کے علاوہ کسی اور دن ہو ، تو عدتِ وفات پورے ایک سو تیس دن ہے ،مہینوں کا اعتبار نہیں ہوگا۔ صورت مستفسرہ میں آپ کے شوہر  کا انتقال چونکہ اسلامی مہینےصفر المظفر کی پہلی تاریخ کو نہیں، بلکہ بارہ کو ہوا ،لہٰذا وقتِ وفات سے پورے ایک سو تیس دن آپ کی عدت ہے۔ایک سو تیس دنوں کے اعتبار سے آپ کی عدت 28فروری2019 کو ختم ہوگی۔ یاد رہے احکامات شرعیہ میں اعتبار اسلامی ماہ کا ہوتا ہے ، مگر دنوں کے لحاظ سے عیسوی تاریخ کا حساب اس لیے بتایا ہے تاکہ یاد رہنا آسان ہو۔

     اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے :﴿ وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنۡکُمْ وَیَذَرُوۡنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًاترجمہ کنز الایمان :اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں ، وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں ۔(القرآن ، پارہ نمبر 2 ، سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 234)

     تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:(و) العدۃ(للموت أربعۃ أشھر) بالأھلۃ لو فی الغرۃ (و عشرۃ) من الأیام اور موت کی عدت چاند کے حساب سے چار ماہ اور دس دن ہے ، اگر (انتقال) پہلی تاریخ میں ہو۔(تنویر الابصار ودر مختار مع رد المحتار،ج5،ص190،مطبوعہ کوئٹہ)

     عالمگیری میں ہے:اذا وجبت العدۃ بالشھور فی الطلاق و الوفاۃ فان اتفق ذلک فی غرۃ الشھر اعتبرت الشھور بالاھلۃ و ان نقص العدد عن ثلاثین یوماً و ان اتفق ذلک فی خلالہ فعند أبی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ و احدی الروایتین عن أبی یوسف رحمہ اللہ تعالی یعتبر فی ذلک عدد الایام تسعون یوماً فی الطلاق و فی الوفاۃ یعتبر مائۃ و ثلاثون یوماً جب طلاق اور وفات میں عدت مہینوں کے حساب سے ہو ، تو اگر اس کا اتفاق ہو مہینے کی پہلی تاریخ میں ، تو مہینوں کا اعتبار چاند کے حساب سے ہوگا اگرچہ گنتی تیس دن سے کم ہو جائے اور اگر اس کا اتفاق ہو مہینے کے دوران ، تو امام اعظم علیہ الرحمۃ اور امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کی دو روایتوں میں سے ایک (کے مطابق) اس بارے میں ایام کی گنتی کا اعتبار ہوگا ۔ طلاق میں نوے دن اور وفات میں ایک سو تیس دن کا اعتبار کیا جاے گا۔(عالمگیری،ج1،ص527،مطبوعہ کوئٹہ)

     صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’موت کی عدت چار مہینے دس دن ہے یعنی دسویں رات بھی گزر لے۔پھر موت پہلی تاریخ کو ہو ، تو چاند سے مہینے لیے جائیں ورنہ حرہ کے ليے ایک سوتیس دن اور باندی کے ليے پینسٹھ دن۔ملخصاً“(بہار شریعت،ج2،ص237،238،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

     عدت یا علاوہ عدت کے پردے کے احکام میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ بعض لوگ بر بنائے جہالت یہ سمجھتے ہیں کہ صرف عدت میں پردہ کے خصوصی احکام ہوتے ہیں، وہ سخت غلطی پر ہیں ۔عدت و غیرِ عدت میں نسبی، صہری اور رضاعی محارم کے علاوہ سب غیر محارم سے پردہ واجب ہے۔اس میں ضابطہ یہ ہے کہ غیر محارم سے مطلقاً پردہ واجب ۔ محارم نسبی یعنی سگا بھائی، بیٹا ،چچا ،ماموں اور والد وغیرہ سے پردہ نہ کرنا واجب ، اگر ان سے پردہ کرے گی ، تو گنہگار ہوگی، جبکہ صہری محارم جیسے سسر اور داماد وغیرہ، یونہی رضاعی محارم جیسے رضاعی بھائی اور رضاعی والد وغیرہ سے پردہ کرنا واجب نہیں،پردہ کرے ، تو بھی جائز ہے، نہ کرے ، تو بھی جائز ہے، البتہ جوانی کی حالت میں یا احتمالِ فتنہ ہو ، توپردہ کرنا ہی مناسب ہے۔

     عدت میں پردہ سے متعلق علامہ ابن عابدین  شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : وفی الموت تستر عن سائر الورثۃ ممن لیس بمحرم لھا اور وفات کی عدت میں  عورت شوہر کے ان تمام ورثاء سے پردہ کرے گی کہ جو اس کے محرم نہیں ہیں ۔(ردالمحتار ،ج5، ص230 ، مطبوعہ  کوئٹہ )

     سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’اس کا ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقاً واجب اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب ۔ اگر کرے گی ، تو گنہگار ہوگی اور محارم غیرِ نسبی مثل علاقۂ مصاہرت و رضاعت ، ان سے پردہ کرنا اور نہ کرنا دونوں جائز، مصلحت و حالت پر لحاظ ہوگا۔ اسی واسطے علماء نے لکھا ہے کہ جوان ساس کو داماد سے پردہ مناسب ہے یہی حکم خسر اور بہو کاہے۔“(فتاوی رضویہ،ج22،ص240،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاهور)

     حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’عدت اور غیر عدت میں پردہ کے احکامات میں کوئی فرق نہیں۔قبلِ عدت جن لوگوں سے پردہ فرض ہے ، دوران عدت بھی ان سے پردہ کرنا فرض ہے۔“(وقار الفتاوی ،ج3،ص158،مطبوعہ بزم وقار الدین ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم