Doran e Iddat Janaze Ke Sath Thori Door Jane Par Kya Iddat Toot Jayegi?

دورانِ عدت جنازے کے ساتھ تھوڑی دور جانے تک کیا عدت ٹوٹ جائے گی؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12883

تاریخ اجراء: 04 ذو الحجۃ الحرام1444 ھ/23جون 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ ابھی کچھ دن قبل میرے ماموں کا انتقال ہوا، جب جنازہ گھر سے باہر لے جایا گیا تو ان کی بیوہ روتی ہوئی جنازے کے ساتھ ہی گھر سے باہر نکل گئیں اور تھوڑی دور تک جنازے کے ساتھ چلتی رہیں پھر انہیں گھر واپس لایا گیا۔

   آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ دورانِ عدت بیوہ کا جنازے کے ساتھ یوں  گھر سے باہر نکلنا جائز تھا؟ نیز کیا گھر سے نکلنے کی بنا پر ان کی عدت ٹوٹ گئی؟اور اگر عدت ٹوٹ گئی ہے تو اب اس کا کفارہ کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شوہر نے جس مکان میں بیوی کو رکھا ہوا تھا اس کے انتقال پر اسی مکان میں عدت گزارنا عورت  پر واجب ہوتا ہے،  بلا ضرورتِ شرعیہ اس مکان سے نکلنا نا جائز و گناہ ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں بیوہ  دورانِ عدت بلا ضرورتِ شرعیہ شوہر کے  مکان سے نکلنے کے سبب گنہگار ہوئی۔  اس گناہ سے توبہ کرے اور اپنی بقیہ عدت شوہر کے  مکان میں ہی  پوری کرے ۔

   البتہ جہاں تک عدت ٹوٹنے کا سوال ہے تو یہ یاد رہے کہ اگر کوئی عورت دورانِ عدت بلا ضرورتِ شرعیہ شوہر کے گھر سے نکل بھی جائے  یا پھر عورت ایسا کام کر لے جو عدت میں کرنے کی اجازت نہیں،  تب بھی اس کی عدت باقی رہتی ہے جو کہ شریعت کے مقررکردہ وقت پر ہی ختم ہوتی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں حکمِ شرع یہی ہے کہ بیوہ اپنی بقیہ عدت شوہر کے  مکان میں ہی  پوری کرے اور اس دوران بلا ضرورتِ شرعیہ گھر سے باہر نہ نکلے، دورانِ عدت گھر سے باہر نکلنے پر سوائے اس گناہ سے توبہ کرنے کے الگ سے کوئی کفارہ شریعت نے بیان نہیں کیا۔

   عدتِ وفات کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنۡکُمْ وَیَذَرُوۡنَ اَزْوٰجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًاۚ ترجمہ کنز الایمان :”اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔“(القرآن الکریم: پارہ 2، سورۃ البقرۃ ، آیت234)

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے:”حاملہ کی عدت تو وضع حمل ہے جیسا کہ سورہ طلاق میں مذکور ہے یہاں غیر حاملہ کابیان ہے جس کا شوہر مرجائے اس کی عدت چار ماہ دس روز ہے۔اس مد ت میں نہ وہ نکاح کرے، نہ اپنا مسکن چھوڑے ،نہ بے عذر تیل لگائے،نہ خوشبو لگائے، نہ سنگار کرے،نہ رنگین اور ریشمیں کپڑے پہنے، نہ مہندی لگائے ،نہ جدید نکاح کی بات چیت کھل کر کرے۔“(تفسیرِ خزائن العرفان، ص 80، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   شوہر کی موت کے وقت عورت جس مکان میں رہ رہی تھی اسی مکان  میں عدت گزارنا اس پر واجب ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے: ”علی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنیٰ حال وقوع الفرقۃ و الموت کذا فی الکافی“ یعنی معتدہ پر لازم ہے کہ اسی گھر میں عدت گزارے جو جدائی یا موت کے وقت اس کی جائے سکونت تھا جیسا کہ کافی  میں مذکور ہے۔(فتاوٰی  عالمگیری،  ج 01، ص 535،  مطبوعہ پشاور)

   فتاوٰی  رضویہ میں ہے: ”(معتدہ کو )چار مہینے دس دن وہیں(یعنی مکانِ مسکونہ میں) گزارنا فرض ہے، اللہ  عزوجل کے ادائے فرض میں حیلے نہ کیے جائیںواللہ یعلم المفسد من المصلح(اللہ تعالیٰ مفسد اور مصلح کو جانتا ہے۔)“(فتاوٰی رضویہ، ج 13، ص330، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوٰی  امجدیہ میں ہے:”عورت کو زمانہ عدت میں ۔۔۔  بغیر ضرورت شرعیہ نکلنا حرام ہے ۔“ (فتاوٰی  امجدیہ ، ج02، ص 285، مکتبۃ رضویہ، کراچی، ملتقطاً)

   مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”شوہر کی موت کے وقت بیوی، جس مکان میں رہ رہی تھی اسی میں اس کو عدت گزارنی واجب ہے۔ اس مکان سے بلاعذر کسی دوسرے مکان میں عدت کیلئے جانا، نا جائز ہے۔“(وقار الفتاوٰی، ج 03، ص 206، بزم وقار الدین)

   دورانِ عدت بلا ضرورتِ شرعیہ شوہر کے مکان سے نکل جانے سے عدت ختم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”(صورتِ مسئولہ میں)عدت کے اندر اسے دوسری جگہ لے جانا حرام تھا اور جب تک وہاں رکھا یہ بھی حرام ہوا مگر اس سے عدت جاتی نہ رہی موت سے چار مہینے دس دن تک شوہر ہی کے مکان پر رہنا پڑے گا۔(فتاوٰی رضویہ، ج13، ص333، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم