مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3123
تاریخ اجراء:12ربیع الثانی1446ھ/16اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بیوی کے انتقال کے بعد مرد پر عدت واجب کیوں نہیں ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پہلے یہ بات یادرکھیں کہ شریعت مطہرہ میں جب کسی چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اس میں اللہ تعالی کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سماجی و معاشرتی فوائد و مصالح بھی ہوتے ہیں، خواہ ہمارے علم کی وہاں تک رسائی ہو یا نہ ہو ،عدت بھی انہی شرعی احکام میں سے ایک ہے ،جس کے پیچھے بہت ساری حکمتیں ہیں ،جن میں سے بعض کو فقہائے اسلام اور اہل علم نے بیان کیاہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ استبراء رحم ہو کہ شریعت مطہرہ نے نسل انسانی اور لوگوں کے حسب و نسب کو تحفظ دینے اور اسے شکوک و شبہات سے بچانے کا بہت اہمتام فرمایا ہے، چنانچہ اسی حکمت کے پیش نظر کہ نسب کا ثبوت ممکن ہو اور اس میں کوئی شبہ اور اختلاط پیدا نہ ہو یہ حکم دیا گیا کہ ہر عورت کا رحم اس کے سابق شوہر کے نطفے اور اس کے حمل سے پاک اور صاف ہو جائے اور کسی طرح کا کوئی اختلاط اور شبہ نہ ہو، یہ حکم دیاگیا کہ رحم کی صفائی کے لیے عدت ضروری ہے ۔
اور چونکہ مرد کے لئے ایسا معاملہ نہیں ہے اس لئے اسے شریعت نے ایسا حکم بھی نہیں دیا۔
نوٹ:یہ یاد رہے کہ یہ محض ایک عقلی توجیہ ہے ورنہ اگر کوئی عقلی توجیہ نہ بھی ہو تب بھی جو شریعت نے حکم دیا ہے ہمیں اسی پر عمل کرنا ہوگا۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے﴿ وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرً﴾ ترجمہ کنز الایمان : اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔(القرآن ،پارہ 2،سورۃ البقرۃ ،آیت 234)
اس آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر میں ہے:’’وقد ذكر سعيد بن المسيب، وأبو العالية وغيرهما، أن الحكمة في جعل عدة الوفاة أربعة أشهر وعشرا، لاحتمال اشتمال الرحم على حمل، فإذا انتظر به هذه المدة، ظهر إن كان موجودا، كما جاء في حديث ابن مسعود الذي في الصحيحين وغيرهما :إن خلق أحدكم يجمع في بطن أمه أربعين يوما نطفة، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث إليه الملك فينفخ فيه الروح، فهذه ثلاث أربعينات بأربعة أشهر، والاحتياط بعشر بعدها لما قد ينقص بعض الشهور، ثم لظهور الحركة بعد نفخ الروح فيه“ ترجمہ : سعید بن مسیب اور ابو العالیہ وغیرہ نے فرمایا کہ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ حمل کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ آیا کہیں حمل تو نہیں، جب یہ عرصہ انتظار کیا جائے گا تو اگر حمل موجود ہوا تو ظاہر ہو جائے گا، جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں بیان ہوا ہے:’’یقینا تمہاری خلقت کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی صورت میں رکھا جاتا ہے، اور پھر وہ اتنے ہی دن میں ایک لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے، پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے‘‘۔تو یہ چالیس ایام تین بار ہوں تو چار ماہ بنتے ہیں، اور اس کے بعد دس دن اور، احتیاط کے ہیں کیونکہ بعض مہینے تیس دن سے کم ہوتے ہے، اور پھر اس میں روح پھونکے جانے کےبعد حرکت کے ظاہر ہونے کے لیے یہ ایام رکھے گئے ہیں۔(تفسیر ابن کثیر،ج 1،ص 481،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” خیال رہےکہ عدت ہمیشہ عورت پر ہوتی ہے ،مرد پر نہیں کیونکہ عورت کے حاملہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے نہ کہ مرد کے ۔"(تفسیرِ نعیمی،ج 2،ص 445،نعیمی کتب خانہ،گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
جس کو ماہواری نہ آتی ہو اس کی عدت کیا ہوگی؟
جب طلاق کاخط ملا تب عدت شروع ہوگی یا جب طلاق دی تب سے؟
حاملہ کی عدت کب تک ہوگی ؟
بیوہ کی عِدّت اورغیر شرعی وصیت پر عمل کرنا کیسا؟
طلاق یافتہ ،اوربیوہ عورت کی عدت کتنی ہے؟
کیا حاملہ عورت کی عدت کا نفقہ بھی شوہر پر لازم ہے؟
عدتِ وفات کی مدت اور اس میں پردے کا حکم
وفات کی عدت کے احکام