Aurat Ka Iddat Mein Kin Kin Se Parda Hai Kya Aasman Se Bhi Parda Kare Gi ?

عورت کا عدت میں کن کن سے پردہ ضروری ہے کیا آسمان سے بھی پردہ کرے گی ؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Fmd-2174

تاریخ اجراء:05جمادی الاخریٰ1442ھ/19جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگرکسی عورت کے شوہرکاانتقال ہوجائے، تواسے اپنی عدت کے دوران کن لوگوں سے پردہ کرنا ضروری ہےاورکن سے نہیں؟نیزاس دوران بھتیجوں بھانجوں یعنی سگےبھائی اوربہنوں کےبچوں سے بھی پردہ کرنالازم ہے یانہیں؟اسی طرح داماد سے پردہ ہے یانہیں؟بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عدت وفات میں آسمان سےبھی پردہ ہے،کیایہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بعض لوگ بر بنائے جہالت یہ سمجھتے ہیں کہ عدت میں پردہ کےکوئی خصوصی احکام ہوتے ہیں، وہ سخت غلطی پر ہیں۔دراصل شریعت میں عورت کےلیےجن مردوں سے پردہ کرنے کاحکم ہے،ان سے ہرحال میں پردہ کرناہے۔عورت عدت میں ہویانہ ہواورجن مردوں سے پردہ کاحکم نہیں ہے،ان سےعدت میں بھی پردہ نہیں ۔یعنی عدت سے پردے کے سابقہ احکامات بدلتے نہیں ہیں، بلکہ وہی رہتے ہیں۔

   کن سے پردہ کرناہے اورکن سےنہیں اس حوالےسے شرعی اصول یہ ہیں کہ:

   (1)غیرمحرم یعنی اجنبی مرد،مثلاًدیور،جیٹھ،چچازاد،پھوپھی زاد،خالہ زاد،ماموں زاد،بہنوئی  وغیرہ سے پردہ ہرحال میں واجب ہے ،چاہے عورت عدت میں ہو یا عام حالت میں ہو۔

   (2)محارم نسبی یعنی بھائی، بیٹا ،چچا ،ماموں اور والد وغیرہ سے پردہ نہ کرنا واجب ، اگر ان سے پردہ کرے گی ، تو گنہگار ہوگی۔

    (3)صہری محارم یعنی سسرالی رشتے سےجومحارم ہیں،جیسےسسر وغیرہ یونہی رضاعی محارم جیسے رضاعی بھائی اور رضاعی والد وغیرہ سے پردہ کرناواجب نہیں،پردہ کرے ،تو بھی جائز ہے، نہ کرے ، توبھی جائز ہے، البتہ جوانی کی حالت میں پردہ کرناہی مناسب ہےاورمظنہ فتنہ یعنی فتنہ کاظنّ غالب ہو،توپردہ کرناواجب ہے۔

   اس تفصیل کی روشنی میں پوچھی گئی صورت کاجواب واضح ہے وہ یوں کہ بھتیجے اوربھانجے چونکہ نسبی محارم میں داخل ہیں  ،اس لیے ان سے عدت کے دوران پردہ نہ کرنا واجب ہے یعنی کرے گی توگنہگارہوگی اورداماد چونکہ سسرالی رشتے کے اعتبارسے محرم ہے،اس لیے اس سے پردہ کرنا،نہ کرنادونوں ہی جائزہے،البتہ ساس کے جوان ہونےکی حالت میں  پردہ کرنامناسب وبہترہےاوراگرفتنہ کاغالب گمان ہو،توپردہ کرناواجب ہوگا۔یہ حکم بھی مطلقاً ہے،عدت کے ساتھ ہی خاص نہیں  ہے۔

   اورشریعت میں آسمان سے پردے کاکوئی تصورنہیں ہے۔لہذاعدت میں عورت اپنے گھرکی چاردیواری میں رہتےہوئےمکان کے کھلے حصے یعنی صحن  وغیرہ میں آسکتی ہے،اس کودیکھ بھی سکتی ہے،ہاں اس صورت میں  جن مردوں سے پردہ کرنا ضروری ہے ،ان سے بے پردگی نہ ہو اس بات کا ضرور دھیان رکھا جائے ۔

   وقارالفتاویٰ میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’عدت اور غیر عدت میں پردہ کے احکامات میں کوئی فرق نہیں۔قبلِ عدت جن لوگوں سےپردہ فرض ہے ، دوران عدت بھی ان سے پردہ کرنا فرض ہے۔“(وقار الفتاوی ،ج3،ص158، بزم وقار الدین ، کراچی)

   ایک اورجگہ لکھتے ہیں:”قبلِ عدت جن سے پردہ فرض تھا،دورانِ عدت بھی ان سے پردہ کرنافرض ہےاورجن لوگوں سے عدت سے پہلے پردہ کرنافرض نہیں تھا،ان سے عدت میں بھی پردہ کرنافرض نہیں۔(وقارالفتاوی،ج03،ص212،بزم وقارالدین،کراچی)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’اس کا ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقاً واجب اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب ۔ اگر کرے گی ، تو گنہگار ہوگی اور محارم غیرِ نسبی مثل علاقۂ مصاہرت و رضاعت ، ان سے پردہ کرنا اور نہ کرنا دونوں جائز، مصلحت و حالت پر لحاظ ہوگا۔ اسی واسطے علماء نے لکھا ہے کہ جوان ساس کو داماد سے پردہ مناسب ہے ،یہی حکم خسر اور بہو کاہے۔“(فتاوی رضویہ،ج22،ص240، رضا فاؤنڈیشن ، لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم