Aurat Ka Iddat Ke Doran Kiraye Ka Ghar Tabdeel Karna Kaisa

 

کرایہ کے گھر میں رہنے والی عورت کا دورانِ عدت گھر تبدیل کر نا

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3220

تاریخ اجراء:01جمادی الاولٰی 1446ھ/04نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہمارے رشتہ دار ہیں وہ کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں اور ان کی بہو عدت میں ہے انہوں نے گھر تبدیل کرنا ہے کیا وہ  کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ کیا ان کی بہو  کو اسی گھر میں ہی عدت  مکمل کرنی ہوگی یا گھر تبدیل کرنے پر وہاں بھی کرسکتی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی مسئلہ یہ ہے کہ :"شوہر کی موت کے وقت،عورت جس مکان میں رہ رہی تھی ،اسی مکان  میں عدت گزارنا اس پر واجب ہوتاہے،بغیر  شرعی عذر وہ مکان چھوڑکردوسری  جگہ جانا،جائز نہیں ہوتا۔" لہذا جب تک  عورت  عدت  میں ہے،بلاضرورت وہ  مکان تبدیل نہ کرے اور اگر مالکِ مکان،مکان  خالی کرنے کا کہتا ہے  توبھی اسے مسئلہ بیان کر کے  مہلت لےلی جائے اوراگر مالک مکان کسی طور پر نہیں مانتا یا اتنا کرایہ دینے کی قدرت نہیں ہے یاکوئی اورضرورت  ہے کہ جس کے باعث مکان تبدیل کیے بغیرچارہ نہیں  تو  عورت قریبی کسی دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے ۔ 

   فتاوی  ہندیہ  میں ہے”علی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنیٰ حال وقوع الفرقۃ و الموت کذا فی الکافی“ ترجمہ:معتدہ پر لازم ہے کہ اسی گھر میں عدت گزارے جو جدائی یا موت کے وقت اس کی جائے سکونت تھا ،جیسا کہ کافی  میں مذکور ہے۔(فتاوی ھندیہ،ج 1،ص 535،دار الفکر،بیروت)

   مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”شوہر کی موت کے وقت بیوی، جس مکان میں رہ رہی تھی اسی میں اس کو عدت گزارنی واجب ہے۔ اس مکان سے بلاعذر کسی دوسرے مکان میں عدت کیلئے جانا، نا جائز ہے۔(وقار الفتاویٰ، جلد 3، صفحہ 206، بزم وقار الدین)

   جن ضروریات کی بنا ء پر عورت دورانِ عدت گھر سے نکل سکتی ہے، اس کی وضاحت تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :” (وتعتدان) ای معتدۃ طلاق وموت (فی بیت وجبت فیہ) ولا یخرجان منہ (الا ان تخرج او یتھدم المنزل او تخاف ) انھدامہ، او( تلف مالھا او لا تجد کراءالبیت) ونحو ذلک من الضرورات ، فتخرج لأقرب موضع الیہ “ یعنی  عدت طلاق اور عدت وفات والیاں اس گھر میں عدت گزاریں گی جس گھر میں عدت واجب ہوئی ہے ،یہ اس گھر سے نہیں نکل سکتیں ، ہاں اگر ان کو نکال دیا جائے یا وہ  گھر ہی گر جائے یا گھر گرنے کا خوف ہو یا مال تلف ہونے کا خوف ہو یا گھر کا کرایہ نہ ہو یا اس طرح کی اور کوئی ضرورت ہو تو عدت وفات والی اس گھر کے قریب والی جگہ کی طرف منتقل ہو ۔(در مختار مع رد المحتار،ج 3،ص 536،دار الفکر،بیروت)

   ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃارشاد فرماتے ہیں:” موت یا فرقت کے وقت جس مکان میں عورت کی سکونت تھی اُسی مکان میں عدت پوری کرے اور یہ جو کہا گیاہے کہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی اس سے مراد یہی گھر ہے اور اس گھر کو چھوڑکر دوسرے مکان میں بھی سکونت نہیں کرسکتی مگر بضرورت ۔۔۔آج کل معمولی باتوں کو جس کی کچھ حاجت نہ ہو محض طبیعت کی خواہش کو ضرورت بولا کرتے ہیں وہ یہاں مراد نہیں بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اُس کے بغیر چارہ نہ ہو ۔“(بہار شریعت، ج 2،حصہ 8، ص 245،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم