دورانِ عدت عورت کا ختم میں شرکت کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا کیسا ؟

مجیب:مولانا شاکرصاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Sar-6687

تاریخ اجراء:13ذیقعدۃالحرام1440ھ/17جولائی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ میرے شوہرکاانتقال ہوچکاہے اورمیں عدت میں ہوں ۔ مرحوم کے ایصال ِ ثواب کے لیے ان کے والد کے گھرختم کااہتمام کیاجاتاہے،کیونکہ گھروسیع ہے ،جس میں مہمان آسانی سے آسکتے ہیں ،توکیامیں دورانِ عدت ختم میں شرکت کے لیے اپنے شوہرکے گھرسے باہرنکل کردوسری گلی میں سسرکے گھر جاسکتی ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    عورت کادورانِ عدت بلاضرورت گھرسے باہرنکلنا جائز نہیں اورختم میں شرکت کرناضرورت میں داخل نہیں ، کیونکہ ختم سے مقصود مرحوم کوایصالِ ثواب کرناہے اوریہ کام عورت اپنے گھرمیں رہ کرذکرواذکاروغیرہ کے ذریعے بھی باسانی کرسکتی ہے۔

    دورانِ عدت گھرسے باہرنہ نکلنے کے بارے میں ارشادِخداوندی ہے:﴿ لَا تُخْرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ ﴾ ترجمہ کنز الایمان:عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالواورنہ وہ آپ نکلیں۔

(القرآن،سورة الطلاق،آیت01)

    مذکورہ بالا آیت کے تحت تفسیرصراط الجنان میں ہے:”یعنی اے لوگو!عدت کے دنوں میں عورتوں کوان کے گھروں سے نہ نکالواورنہ اس دوران وہ خوداپنی رہائش گاہ سے نکلیں کیونکہ یہ رہائش محض شوہرکاحق نہیں ہے ،جواس کی رضامندی سے ساقط ہوجائے ،بلکہ یہ شریعت کاحق بھی ہے۔“

(تفسیرصراط الجنان،ج10،ص197،مطبوعہ مکتبة المدینہ،کراچی)

    علامہ محمدامین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں:”لاتخرج المعتدہ عن طلاق أوموت الالضرورة“یعنی جس عورت کوطلاق ہوجائے یاجس کا شوہرفوت ہوجائے ، وہ دورانِ عدت کسی ضروت کے بغیرگھرسے نہیں نکل سکتی ۔

( ردالمحتار،کتاب الطلاق،فصل فی الحداد، ج05،ص229، مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:”موت یا فرقت کے وقت جس مکان میں عورت کی سکونت تھی اسی مکان میں عدت پوری کرے اور یہ جو کہا گیا ہے کہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی ، اس سے مراد یہی گھر ہے اور اس گھر کو چھوڑ کر دوسرے مکان میں بھی سکونت نہیں کرسکتی مگر بضرورت آج کل معمولی باتوں کو جس کی کچھ حاجت نہ ہو محض طبیعت کی خواہش کو ضرورت بولا کرتے ہیں، وہ یہاں مراد نہیں، بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔“

(بہارِ شریعت،حصہ8،ص245،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم