Waldain Ki Larai Mein Aulad Kis Ka Sath De ?

والدین کی لڑائی میں اولادکس کاساتھ دے؟

مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی نمبر: WAT-1351

تاریخ اجراء:       18جمادی الاخریٰ1444 ھ/11جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر ماں باپ کی آپس میں لڑائی ہو ، تو اولاد کو کس کی سائیڈ لینی چاہیئے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اولاد کو ماں باپ میں سے کسی ایک کی بھی سائیڈ نہیں لینی چاہیے کیونکہ اگر اولاد کسی ایک کی سائیڈ لیتے ہوئے دوسرے کو تکلیف دے گی یا اس سے بدتمیزی کرے گی ، تو سخت گنہگار ہو گی ۔ اولاد پر ماں باپ دونوں کا حق اور ادب و احترام لازم ہے اور کسی ایک کو بھی دکھ ، تکلیف دینا یا اس سے سخت زبان سے بات کرنا وغیرہ سب حرام اور جہنم کی حقدار ی کا سبب ہے ۔ ایسی صورت میں والدین میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کی بجائے خاموشی اور دعا کا سہارا لینا چاہیے ۔ نیز ہو سکے تو والد و والدہ کو دعوت اسلامی کا مدنی چینل اور امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادِری رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا مدنی مذاکرہ دکھائیں اور امیرِ اہلسنت کے مختلف رسائل جیسے :" احترامِ مسلم "اور" غصے کا علاج" وغیرہ رسالے پڑھائیں یا گھر میں والد و والدہ کی موجودگی میں ان کو پڑھ کر سنائیں ۔ نیز امیرِ اہلسنت کا یہ مدنی مذاکرہ سنائیں : ”گھر امن کا گہوارہ کیسے بنے“ ۔

   والدین کی لڑائی میں اولاد کیا کرے ، اس کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”اگر والدین میں باہم تَنازُع (یعنی لڑائی) ہو ، تو ماں کا ساتھ دے کر معاذ اللہ باپ کے درپے ایذا ہو (یعنی باپ کو تکلیف دے) یا اس پر کسی طرح درشتی (سختی/ بد اخلاقی) کرے یا اسے جواب دے یا بے ادبانہ آنکھ ملا کر بات کرے ، یہ سب باتیں حرام اور اللہ عَزَّ وجَل کی معصیت (نافرمانی) ہیں، (اور ایسا کرنا) نہ ماں کی اطاعت ہے ، نہ باپ کی، تو اسے ماں باپ  میں سے کسی کا ایسا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں، وہ دونوں اس کی جنت ونار ہیں، جسے ایذا (تکلیف) دے گا ، دوزخ کا مستحق (حقدار) ہو گا والعیاذ باللہ۔ معصیتِ خالق (اللہ پاک کی نافرمانی) میں کسی کی اطاعت نہیں، اگر مثلاً ماں چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کا آزار (دکھ) پہنچائے اور یہ نہیں مانتا ، تو وہ ناراض ہوتی ہے، ہونے دے اور ہرگز نہ مانے، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں کے معاملہ میں۔ ان کی ایسی ناراضیاں کچھ قابل لحاظ نہ ہوں گی کہ یہ ان کی نِری زیادتی ہے کہ (وہ) اس (یعنی اولاد) سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی چاہتے ہیں بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کابھی حاکم وآقا ہے۔“(فتاوی رضویہ ، ج24، ص390، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم