Safar Mein Aik Biwi Ke Sath 2 Raatain Guzari, To Dusri Ke Paas Kitni Guzare

 

سفر میں ایک بیوی کے ساتھ دو راتیں گزاری، توکیا دوسری کے پاس بھی اتنی راتیں گزارنا ہوں گی؟

مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1719

تاریخ اجراء:20ذوالقعدۃالحرام1445ھ/29مئی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کو میکے چھوڑنے جائے جو کہ شرعی سفر بنتا ہو ،وہاں دو  راتیں رکے، تو کیا دوسری بیوی کو اس کے بدلے راتیں دینی لازم ہوں گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں دوسری بیوی کو اتنی راتیں دینا لازم نہیں ۔

   صدر الشریعہ بد ر الطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”سفر کو جانے میں باری نہیں بلکہ شوہر کو اختیار ہے جسے چاہے اپنے ساتھ لے جائے اور بہتر یہ ہے کہ قرعہ ڈالے جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے لے جائے اور سفر سے واپسی کے بعد اور عورتوں کو یہ حق نہیں کہ اس کا مطالبہ کریں کہ جتنے دن سفر میں رہا۔ اُتنے ہی اُتنے دنوں ان باقیوں کے پاس رہے بلکہ اب سے باری مقرر ہوگی۔ سفر سے مراد شرعی سفر ہے جس کا بیان نماز میں گزرا۔ عرف میں پردیس میں رہنے کو بھی سفر کہتے ہیں یہ مراد نہیں۔“(بہار شریعت ، جلد 02 ، صفحہ 98، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم