Jaisa Khana Shohar Khud Khaye Kya Waisa He Biwi Ko Khilana Wajib Hai ?

جیسا کھانا شوہر خود کھائے ،کیا ویسا ہی بیوی کو کھلانا واجب ہے؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2435

تاریخ اجراء: 15 رجب المرجب1443  ھ/17 فروری2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ کیا شریعت اسلامیہ کی روشنی میں شوہر اس بات کا پابند ہے کہ جو کچھ وہ خود کھائے، پیے یا پہنے، اسی  طرح کا کھانا پینا اپنی بیوی کو بھی مہیا کرے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت کی طرف سے شوہر پر واجب کردہ اشیاء تین طرح کی ہیں:کھانے پینے کی اشیا، لباس اور رہنے کےلیے مکان۔ان اشیاء کا معیار کیا ہوگا؟ اس کےلیے شوہر اور بیوی دونوں کی کیفیات کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر دونوں امیر کبیر ہوں، تو  شوہر پر امیروں والی اشیاء لازم ہوں گی۔ اگر دونوں غریب ہوں،تو  غریبوں والی اشیا ءلازم ہوں گی اور اگرمیاں بیوی میں سے  ایک امیر ہواور دوسرا غریب ہو، تو اب درمیانے درجے کی اشیاءلازم ہوں گی۔

   مذکورہ اشیاء کے علاوہ دیگر ریفرشمنٹ(Refreshment) کی اشیاء اگرچہ شوہر خود کھاتا ہو، لیکن شرعی اعتبار سے  شوہر پر لازم نہیں کہ وہ یہ اشیاء  بیوی کوبھی دے، البتہ اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو بھی کھانے پینے کی اضافی اشیاءدیتا رہے۔  دین اسلام اس بات کو بہت زیادہ پسند کرتا ہے۔

   احادیث مبارکہ میں اس کی بہت زیادہ ترغیب دلائی گئی  ہےکہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے، یہاں تک کہ ایک حدیث پاک میں فرمایا گیا کہ انسان جب اللہ کی رضا کےلیے کچھ بھی خرچ کرتاہے، تو اس پر وہ اجر کا مستحق ہوتا ہے یہاں تک  کہ  بیوی کے منہ میں لقمہ رکھنے پر بھی وہ اجرو ثواب کا مستحق ہوگا۔ ایک اور حدیث پاک میں فرمایا گیا کہ اچھی نیت سے  بیوی کے منہ میں کوئی چیز رکھنا بھی صدقہ ہے۔

   نیز بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے معاشرتی طور پر بھی بہت فوائد ہیں۔حجۃ الوادع کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو ایک تاریخ ساز خطبہ دیا۔ اس خطبے کی سنہری تعلیمات میں یہ بھی شامل ہے: ”فاتقواللہَ فی النساءفانکم اخذتموھن بامان اللہ“ یعنی عورتوں کے معاملے میں اللہ عزوجل  سے ڈرو کہ تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ لیا ہے۔(الصحیح لمسلم، جلد 2، صفحہ886، بیروت)

   بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے متعلق حدیث پاک ہے: ”ومھما انفقت فھو لک صدقۃ حتی اللقمۃترفعھافی فی امراتک“ یعنی تم جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہے، یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی زوجہ کے منہ میں رکھتے ہو۔(الصحیح للبخاری،جلد 7،  صفحہ62، دار طوق النجاہ)

   اس حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ”والمعنى أن المنفق لابتغاء رضاه تعالى يؤجر“ یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی رضا کےلیے خرچ کرنے والا ثواب کا مستحق ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،جلد6، صفحہ 230، تحت الحدیث3071، بیروت)

   فتاوی تاتار خانیہ میں ہے: ”والنفقۃ الواجبۃ: الماکول والملبوس والسکنیٰ “ یعنی واجب نفقہ سے مراد ، کھانے پینے کی اشیاء، پہننے کے کپڑے اور رہائش مہیا کرنا ہے۔(فتاوی تاتار خانیہ، جلد5، صفحہ358، ھند)

   بدائع الصنائع میں ہے: ”اذا کان الزوج معسرا ینفق علیھا ادنی ما یکفیھا من الطعام والادام والدھن بالمعروف ومن الکسوۃ ادنی ما یکفیھا من الصیفیۃ والشتویۃ وان کان متوسطا ینفق علیھا اوسع من ذلک بالمعروف ومن الکسوۃ ارفع من ذلک بالمعروف وان کان غنیا ینفق علیھااوسع من ذلک کلہ بالمعروف ومن الکسوۃ ارفع من ذلک کلہ بالمعروف وانما کانت النفقۃ والکسوۃ بالمعروف لان دفع الضرر عن الزوجین واجب وذلک  فی ایجاب الوسط من الکفایۃ“ یعنی شوہر جب تنگدست ہو، تو وہ اپنی بیوی کو  کھانے ، پینے، تیل وغیرہ مہیا کرنےمیں عرف کے مطابق کم درجے کی اتنی اشیاء دینے کا پابند ہے، جو عورت کےلیے کافی ہوں۔اسی طرح لباس مہیا کرنے میں سردی اور گرمی کےکم درجے  کے اتنے کپڑے دینے کا پابند ہے،جو عورت کےلیے کافی ہوں۔ اگر شوہر متوسط طبقے سے ہو ،تو  پہلی حالت سے اچھی نوعیت کے کھانے پینے کا سامان اور کپڑے مہیا کرے گااور اگر شوہر مالدار ہو، تو   دونوں قِسموں سے بڑھ کر  کھانے پینے کا سامان اور کپڑے مہیا کرے گا۔نفقہ اور کپڑے دینے  میں عمدہ انداز  کا اعتبار  میاں بیوی سے ضرر کو دور کرنے کے لیے ہے اوریہ تب ہی ہوگا جب درمیانی نوعیت کا نفقہ لازم  ہو، جو بیوی کے لیے کافی ہو۔(بدائع الصنائع، جلد4، صفحہ24، بیروت)

   واجب نفقہ کی ادائیگی کے بعد اضافی اشیا مہیا کرنا شوہر پرلازم نہیں ۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے: ”لا يجب عليه ان يطعمها ما ياكله ولا يطعمها ما كانت تاكل في بيت اهلها ايضا ولكن يطعمها خبز الحنطة ولحم الشاة وكذلك الكسوة على هذا الاعتبار“ یعنی شوہر پر واجب نہیں کہ جو کچھ وہ خود کھائے، اس میں سے ہی بیوی کو بھی کھلائے اور نہ ہی یہ واجب ہے کہ عورت اپنے میکے میں جو کھاتی تھی، شوہر اب بھی اس کو وہی کھلائے، البتہ اسے گندم کی روٹی اور بکری کا گوشت وغیرہ کھلائے۔ اسی طرح کپڑوں کا بھی معاملہ ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد4، صفحہ24، بیروت)

   شوہر جب شرعی طورپر لازم اشیا بیوی کو فراہم کر دے، تو پھر اس پر لازم نہیں ہے کہ جو خود کھائے وہی اپنی بیوی کو کھلائے،البتہ مستحب ضرور ہے۔ جیسا کہ  فتاوی ہندیہ میں ہے: ” وقال مشائخنا رحمهم اللہ تعالى: والمستحب للزوج اذا كان موسرا مفرط اليسار والمراة فقيرة ان ياكل معها ما ياكل بنفسه “ یعنی ہمارے مشائخ فرماتے ہیں کہ شوہر جب خوشحال ہو اور بیوی تنگدست ہو ،تو  شوہر کے لیے مستحب ہے کہ بیوی کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے ۔(فتاوی ھندیہ، جلد1، صفحہ548، مصر)

   حُسن معاشرت کی وجہ سے شوہر کےلیے مستحب ہے کہ وہ واجب نفقہ دینے کے بعد بھی بیوی کو وہ اشیا کھلائے پلائےجو وہ خود کھاتا ہے،جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے  : ”والمستحب ان يطعمها الزوج ما ياكله لانه مامور بحسن المعاشرة“ یعنی شوہر کےلیے مستحب ہے کہ جو خود کھائے، وہی اپنی بیوی کو کھلائے ،کیونکہ شوہر کو بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(مجمع الانھر، جلد2، صفحہ176، بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے: ”کھانا دو قسم ہے۔ ایک اصل نفقہ جو زوجہ کے لیے زوج پر واجب ہے، دوسرا اس سے زائد مثل فواکہ و پان و الائچی وعطایا و ہدایا۔“(فتاوی رضویہ، جلد12، صفحہ276،277، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   شرعی طور پر واجب اشیا مہیا کرنے کے علاوہ اشیاء بیوی کو دینا لازم نہیں ۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ” بہتر یہ ہے کہ جیسا آپ کھاتا ہو عورت کو بھی کھلائے، مگر یہ واجب نہیں۔(بھار شریعت، جلد2، حصہ8، صفحہ265، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم