Biwi Aur Bachon Ke Kharche Ki Tafseel

بیوی اور بچوں  کے خرچے کے متعلق تفصیل

مجیب:مفتی محمد نوید رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3102

تاریخ اجراء:24ربیع الاوّل1446ھ/27ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   شوہر پر بیوی اور بچوں کا کتنا خرچہ لازم ہے  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شوہر پر بیوی کا نفقہ لازم ہے ، اس نفقہ سے مراد کھانا ، پہننے کے کپڑے اور رہنے کے لئے مکان ہے ، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں مالدار ہیں ، تو مالداروں والا نفقہ ہوگا اور اگر دونوں محتاج ہیں ، تو محتاجوں والا نفقہ ہوگا ، اور اگر ایک محتاج  اور دوسرا مالدار ہے تو متوسط (درمیانہ)درجے کا نفقہ لازم ہوگا ،  اس کا تعین رقم میں نہیں ہوسکتا کہ چیزوں کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے ۔

   اور بچوں کے نان و نفقے کے  متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر نابالغ بچوں کی ملکیت میں اپنا کوئی ذاتی مال موجود ہے تو ان کا خرچہ ان کے اپنے مال سے کیا جائےگا اور اگر ان کی ملکیت میں مال نہیں ہے توجب تک  اپنی ضرورت کے مطابق کمانے کے قابل نہیں ہوجاتے،اس وقت تک نابالغ بچوں   کا نفقہ باپ کے ذمے پر لازم ہوگا ۔

   اور بالغ اولاد اگر اپاہج ، مجنون یا معذور ہے کہ کمانے کے قابل نہیں ، تو اس کا نفقہ بھی باپ پر لازم ہوگا ۔

   اور لڑکی کی جب تک شادی نہیں ہوجاتی، اس وقت تک  اس کا نفقہ باپ پرلازم ہے جبکہ اس کے پاس اپنا مال نہ ہو ورنہ اس کے مال سے خرچ کیا جائے گا۔

   نوٹ:بیوی اوربچوں کے خرچے میں عرف کااعتبارہے،یعنی اس وقت میں ،اتنی آمدنی ،اتنے مصارف والا،ایسے مقام پرکتناخرچہ کرتا ہے ، اتناخرچہ دینا ہوگا ۔

   بحر الرائق میں ہے ’’واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين، وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا۔۔۔أما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهي فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة‘‘ ترجمہ:اورفقہاء کااس پراتفاق ہے کہ جب میاں بیوی دونوں  امیر ہوں توامیروں والانفقہ لازم ہوگا اور تنگدستوں والانفقہ لازم ہوگاجبکہ دونوں تنگدست ہوں اوراختلاف صرف اسی صورت میں ہے جبکہ ان دونوں میں سے ایک امیر ہو اور دوسرا تنگدست۔اس صورت میں مفتی بہ قول کے مطابق  دونوں مسئلوں میں درمیانہ نفقہ لازم ہوگااوردرمیانہ نفقہ سے مراد تنگدست کے نفقے سے زیادہ اور امیرکے نفقے سے زیادہ ہے۔(البحرالرائق،باب النفقۃ،ج04،ص190،دارالکتاب الاسلامی)

   درمختارمیں ہے’’(وتجب) النفقة۔۔۔(لطفله)۔۔۔(الفقير) ‘‘ترجمہ:اوراپنے فقیربچے کانفقہ واجب ہوتاہے۔

   اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے ’’(قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا ‘‘ترجمہ:یعنی اگروہ کمانے کی عمرتک نہیں پہنچاپس اگروہ اس عمرکوپہنچ گیاتوباپ کواختیارہے کہ اس سے ملازمت کروائے یااسے کسی جگہ پیشہ کرنے بھیجے تاکہ وہ کمائے اوراس کی کمائی سے اس پرخرچ کرے اگروہ بچہ مذکرہو۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،باب النفقۃ،ج03،ص612،دارالفکر،بیروت(

   المبسوط للسرخسی میں بچے کے خرچ کوعورت کے خرچ کی طرح قراردیاگیا ہے '' ویعتبر فیہ المعروف فی ذلک کما یعتبر فی نفقۃ الزوجۃ'' ترجمہ:بچے کے نفقہ میں معروف کاویسے ہی اعتبارہوگاجیسے زوجہ کے نفقے میں اعتبارکیاجاتاہے۔(المبسوط للسرخسی،ج5،ص185،دارالمعرفۃ،بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے ’’اس بچے نابالغ کی پرورش بیشک ذمہ زیدلازم ہے ۔۔۔۔بشرطیکہ اپناکوئی مال نہ رکھتاہواس عمرتک کہ اجرت یاحرفت سے اپنے کھانے پہننے کے قابل کماسکے‘‘ (فتاوی رضویہ،ج13،ص429،رضافاونڈیشن،لاہور)

   فتاوی رضویہ میں بیوی کے نفقہ کو بیان کرتے ہوئے تحریر ہے ''زمانہ موجودہ میں عادتِ بلد جہاں جیسی خوراک وپوشاک معتاد و معہود ہو مثلاً اب عرب خصوصاً مدینہ طیّبہ میں عموماً خوش خوراکی وخوش پوشاکی معمول ہے حالانکہ یہی عرب ایک وقت کمال سادگی وتقلل سے موصوف تھا اعتبار عام عوائد کا ہوگا نہ خاص کسی بخیل یامسرف کا بعض بلاد مثلاً شاہجہانپور میں عام طورپر تیل کھاتے ہیں، پلاؤ قورمہ پر اٹھے کے ہوتے ہیں، ہمارے بلاد میں یہ طبعاً مکروہ اور عرفاً معیوب، تووہاں گھی کا مطالبہ نہ ہوگا یہاں ہوگا وقس علیہ، متعارف طور پر ان سب باتوں کے لحاظ کے بعد کہہ سکتے ہیں کہ اتنی آمدنی اتنے مصارف والا ایسے وقت ایسے مقام میں موسر مرفہ الحال یا معسر تنگدست یا متوسط''(فتاوی رضویہ،ج13،ص465-66،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

   بہار شریعت میں ہے ”اگر مرد و عورت دونوں مالدار ہوں تو نفقہ مالداروں کاسا ہوگا اور دونوں محتاج ہوں تو محتاجوں کا سا اورایک مالدار ہے، دوسرا محتاج تو متوسط درجہ کا یعنی محتاج جیسا کھاتے ہوں اُس سے عمدہ اور اغنیا جیسا کھاتے ہوں اُس سے کم اور شوہر مالدار ہواور عورت محتاج تو بہتر یہ ہے کہ جیسا آپ کھاتا ہو عورت کو بھی کھلائے، مگر یہ واجب نہیں واجب متوسط ہے۔نفقہ کا تعین روپوں سے نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیشہ اُتنے ہی روپے ديے جائیں اس ليے کہ نرخ بدلتا رہتا ہے۔ " (بہار شریعت، ج2،حصہ 8، ص265، مکتبۃ المدینہ )

   اولاد کے نفقہ سے متعلق بہار شریعت میں ہے ” نابالغ اولاد کانفقہ باپ پر واجب ہے جبکہ اولاد فقیر ہو یعنی خود اس کی مِلک میں مال نہ ہو اور آزاد ہو۔ اور بالغ بیٹا اگر اپاہج یا مجنون یا نابینا ہو کمانے سے عاجز ہو اور اُس کے پاس مال نہ ہو تو اُس کا نفقہ بھی باپ پر ہے اور لڑکی جبکہ مال نہ رکھتی ہو تو اُس کانفقہ بہر حال باپ پر ہے اگرچہ اُس کے اعضا سلامت ہوں۔۔۔ لڑکی جب جوان ہوگئی اور اُس کی شادی کردی تو اب شوہر پرنفقہ ہے باپ سبکدوش ہوگیا۔" (بہار شریعت، ج2،حصہ 8، ص273، 274، مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم