Baligha Kunwari Larki Ka Nafqa (Kharcha) Kis Par Hai ?

بالغہ غیر شادی شدہ لڑکی کا نفقہ کس پر ہے ؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2529

تاریخ اجراء: 01شعبان المعظم1445 ھ/12فروری2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگرلڑکی بالغہ ہو،خود کماتی بھی ہومگر شادی شدہ نہ ہو تو کیا اس صورت میں اس لڑکی  کا  نفقہ  باپ پر لازم ہوگا  یا   نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس  لڑکی    کا  اپنا    کوئی      ذریعہ معاش ہو، جس کی وجہ سے  اس کی ملکیت میں  اتنا   مال ہو، جو اس کے نفقے کےلئے کافی ہو ، تو    اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہو،اس کا نفقہ اس کے  باپ پرہرگز    لازم نہیں ہوگا،بلکہ اس کا    نفقہ خود    اسی کی کمائی سے  ہوگا، کیونکہ غیر شادی شدہ لڑکی  کا نفقہ باپ پر   شرعاً   اس وقت       لازم ہوتا ہے، جب خود لڑکی  کی اپنی ملکیت میں  بقدرکفایت     مال نہ ہو ،ورنہ اگر لڑکی  بقدرکفایت اپنا   ذاتی  مال رکھتی ہوتو اس کا نفقہ باپ پر  لازم نہیں  ہوتا،بلکہ خود اسی کے مال میں لازم ہوتا ہے۔

   تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’(وتجب)النفقۃ بانواعھا علی الحر(لطفلہ)یعم الانثی (الفقیر) الحر فان نفقۃ المملوک علی مالکہ والغنی فی مالہ الحاضر‘‘ترجمہ: آزاد شخص پر اپنے بچوں جس میں بیٹی بھی شامل ہے، کا  نفقہ   اپنی تمام  انواع واقسام کے ساتھ واجب ہے ،(جبکہ وہ  بچے)   فقیر  آزاد ہو ں کیونکہ مملوک کا نفقہ اس کے مالک پر  ،اور مالدار کا اس کے موجود مال میں نفقہ  لازم ہے۔(تنویر الابصار مع در مختار،جلد5،باب النفقۃ،صفحہ345 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:’’قال الخیر الرملی:لو استغنت الانثی بنحو خیاطۃ وغزل یجب أن  تکون نفقتھافی کسبھا کما ھو ظاھر،ولا نقول علی الاب مع ذلک،الا اذا کان لا یکفیھا فتجب علی الاب  کفایتھا بدفع القدر المعجوز عنہ‘‘ترجمہ:خیر الدین رملی نے فرمایا کہ اگر لڑکی  سلائی  اور سوت کاتنے وغیرہ کسی  ذریعے سے کمائی کرکے ،مال والی ہوجائے تو اس کا نفقہ ،اسی کی  کمائی میں واجب ہوگا جیسا کہ ظاہر ہے ،اور لڑکی کی کمائی کرنے کے باوجود ہم باپ پر نفقے کا لازم ہونا نہیں کہیں گے،ہاں اس صورت میں کہ جب اس کی کمائی اسے کافی نہ ہو تو باپ پراتنی مقدار میں مال دے کر جس کو حاصل کرنے سے وہ عاجز ہے،اس کے نفقے کو پورا کردینا لازم ہوگا۔(رد المحتار علی الدرالمختار،جلد5،باب النفقۃ،صفحہ345 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ونفقۃ الاناث واجبۃ مطلقاً علی الآباءما لم یتزوجن اذا لم یکن لھن مال  کذا فی الخلاصۃ ‘‘ ترجمہ:اور لڑکیوں کا نفقہ ان کے کنوارے رہنے تک، ان کے آباء پر مطلقاً واجب ہوگا،جبکہ خود ان کی ملکیت میں مال نہ ہو،یونہی خلاصہ میں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،باب النفقات،صفحہ575-574،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’اولاد کا نفقہ ان کی محتاجی کی حالت میں لازم ہوتا ہے،اگر مال رکھتے ہیں،ان کا نفقہ باپ پر نہیں،ورنہ ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد،13، صفحہ462،رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم