2 Biwiyan Hon, To Din Ka Kuch Hissa Bhi Unko Time Dena Lazim Hai Ya Nahi?

 

دو بیویاں ہوں ، تو دن کا کچھ حصہ بھی ان کو ٹائم دینا لازم ہے یا نہیں؟

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1715

تاریخ اجراء:26ذوالقعدۃالحرام1445ھ/04جون2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس شخص کی ڈیوٹی ڈے نائٹ کی ہو یعنی کچھ حصہ دن کا اور کچھ حصہ رات کا ڈیوٹی میں شامل ہو اور رات 11 بجے گھر آتا ہو،اب کیا فقط رات کا باقی حصہ عورتوں میں تقسیم کرنا لازم ہے یا دن کا کچھ حصہ دینا بھی لازم ہے یا دن اپنی مرضی سے جس کے پاس چاہے گزار سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   باری  میں رات کا اعتبار ہے، دن میں برابری ضروری نہیں ہے ، لہٰذا دن کے اوقات میں ایک کے پاس زیادہ حصہ گزارا اور دوسری کے پاس کم ،تو اس میں حرج نہیں ۔

   ہاں ! جس رات جس  بیوی کی باری ہو اس رات میں  بلا ضرورت دوسری بیوی کے پاس نہیں جاسکتا ،  البتہ جب  دوسری بیمار ہو تو پوچھنے  رات میں بھی جاسکتا ہے اور مرض شدید ہوتو اس کے  یہاں رہ بھی سکتا ہے جبکہ اس کے یہاں کوئی ایسا نہ ہو،  جو اس کی تیمارداری کرسکے۔

   بہارِ شریعت میں ہے: ’’ باری میں رات کا اعتبار ہے لہٰذا ایک کی رات میں دوسری کے یہاں بلا ضرورت نہیں جاسکتا۔ دن میں کسی حاجت کے ليے جا سکتا ہے اور دوسری بیمار ہے تو اس کے پوچھنے کو رات میں بھی جا سکتا ہے اور مرض شدید ہے تو اس کے یہاں رہ بھی سکتا ہے یعنی جب اس کے یہاں کوئی ایسا نہ ہو جس سے اس کا جی بہلے اور تیمارداری کرے ۔‘‘(بہارِ شریعت،جلد2، حصہ7، صفحہ 96، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   اسی میں  ہے: ’’ایک عورت کے یہاں آفتاب کے غروب کے بعد آیا۔ دوسری کے یہاں بعد عشا تو باری کے خلاف ہوا۔ یعنی رات کا حصہ دونوں کے پاس برابر صرف کرنا چاہيے۔ رہا دن، اس میں برابری ضروری نہیں ایک کے پاس دن کا زیادہ حصہ گزرا، دوسری کے پاس کم تو اس میں حرج نہیں۔‘‘(بہارِ شریعت،جلد2، حصہ7، صفحہ 97، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم